ماسکو(ہ س)۔روس نے افغانستان کے نئے سفیر کی اسناد کو قبول کر لیا ہے، جس سے وہ طالبان حکومت کو تسلیم کرنے والا پہلا ملک بن گیا ہے۔خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق روسی وزارت خارجہ نے ایک بیان میں کہا: ’ہم سمجھتے ہیں کہ امارت اسلامیہ افغانستان کی حکومت کو باضابطہ طور پر تسلیم کرنے کا عمل دونوں ملکوں کے درمیان مختلف شعبوں میں نتیجہ خیز دوطرفہ تعاون کو فروغ دے گا۔افغان وزارت خارجہ نے اپنے ایکس اکاؤنٹ پر پوسٹ کیا کہ ملک کے وزیر خارجہ مولوی امیر خان متقی اور روسی فیڈریشن کے سفیر دیمتری ڑیرنوف نے کابل میں ملاقات کی۔مزید کہا گیا کہ ’روسی سفیر نے اس ملاقات میں روس کی حکومت کا وہ باضابطہ فیصلہ سرکاری طور پر پہنچایا، جس کے تحت روسی فیڈریشن نے افغانستان کی امارتِ اسلامیہ کو تسلیم کر لیا ہے۔افغان وزارت خارجہ کے مطابق روسی سفیر نے اس فیصلے کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے اسے افغانستان اور روس کے درمیان تعلقات کو مضبوط بنانے کے لیے ایک تاریخی قدم قرار دیا۔افغان وزیر خارجہ نے روسی فیڈریشن کے اس فیصلے کا خیر مقدم کیا اور اسے دونوں ملکوں کے درمیان مثبت تعلقات، باہمی احترام اور تعمیری تعاون کا نیا مرحلہ قرار دیا۔ابھی تک کسی دوسرے ملک نے طالبان حکومت کو باضابطہ طور پر تسلیم نہیں کیا، جو اگست 2021 میں اس وقت اقتدار میں آئی تھی جب امریکہ کی قیادت میں اتحادی افواج 20 سالہ جنگ کے بعد افغانستان سے افراتفری کے عالم میں نکل گئی تھیں۔تاہم چین، متحدہ عرب امارات، ازبکستان اور پاکستان نے کابل میں اپنے سفیروں کو تعینات کر رکھا ہے، جو حکومت کو تسلیم کرنے کی جانب ایک قدم سمجھا جاتا ہے۔روس کا یہ اقدام طالبان انتظامیہ کے لیے ایک اہم سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے، جو عالمی سطح پر اپنی تنہائی کو ختم کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔یہ پیش رفت واشنگٹن کی جانب سے خاص توجہ کے ساتھ دیکھی جائے گی، جہاں امریکہ نے افغانستان کے مرکزی بینک کے اربوں ڈالر منجمد کر رکھے ہیں اور طالبان کے چند اعلیٰ رہنماؤں پر پابندیاں عائد کر رکھی ہیں، جس کے نتیجے میں افغانستان کا بینکاری نظام عالمی مالیاتی نظام سے بڑی حد تک کٹ چکا ہے۔رواں سال اپریل میں روس کی اعلیٰ عدالت نے افغان طالبان پر عائد پابندی کو معطل کرتے ہوئے انہیں دہشت گرد تنظیم کی فہرست سے نکال دیا تھا۔اس وقت یہ اقدام ماسکو کی جانب سے طالبان کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کی سمت ایک قدم کے طور پر دیکھا گیا تھا۔ حال ہی میں دونوں کے درمیان مشترکہ سکیورٹی مفادات، خصوصاً داعش خراسان کے خلاف لڑائی نے روس اور طالبان کو قریب کر دیا ہے۔












