بھاگلپور (قمر امان) اردو رابطہ کمیٹی کی جانب سے ایک تعزیتی نشست منعقد ہوئ، جس میں پروفیسر قمر جہاں کے انتقال پر گہرے رنج و غم کا اظہار کیا گیا۔یہ تعزیتی نشست مدرسہ تحفیظ القرآن اسلام نکر بھیکن پور (وحدت اکیڈمی) میں ہوئی،جس کی صدارت مونگیر یونیورسٹی کے صدر شعبہ اردو،ڈاکٹر پروفیسر شاہد رضا جمال عرف شاہد رزمی نے کی۔تعزیتی نشست کے دوران اپنے صدارتی خطاب میں پروفیسر شاہد رضا جمال عرف شاہد رزمی نے کہا کہ قمر جہاں کی شخصیت نہایت نمایاں اور منفرد تھی۔ان کی تحریروں میں ناصرف فکشن بلکہ تنقید کا بھی منفرد رنگ نمایاں تھا۔ وہ اردو ادب میں اخلاص کی پیکر اور انسان دوست خاتون تھیں۔ان کے قلم کی آواز وقت کے ساتھ ساتھ مزید بلند ہوتی رہے گی۔انہوں نے کہا کہ پروفیسر قمر جہاں کم سخن تھیں مگر جب بولتی تھیں تو ان کے الفاظ میں گہرائی اور معنویت ہوا کرتی تھی۔اردو کونسل ہند کے سکریٹری ڈاکٹر ارشد رضا نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پروفیسر قمر جہاں کا انتقال اردو ادب کے لیے ایک بڑا خسارہ ہے۔وہ ایک ستون کی مانند تھیں،جن کے چلے جانے سے اردو ادب کی عمارت کو بڑا دھچکا لگا ہے۔ان کے قلم کی روشنی ہمیشہ اردو زبان کو منور کرتی رہے گی۔ڈاکٹر محمد صدیق نے پروفیسر قمر جہاں کی خدمات کو منظوم انداز میں پیش کیا اور ان کی ادبی کاوشوں کو زبردست خراجِ عقیدت پیش کیا۔انجمن باغ و بہار کے صدر،جوثر ایاغ نے کہا کہ قمر جہاں کی شخصیت خاموش طبع،مگر تخلیقی صلاحیتوں سے مالامال تھی۔وہ ایک بہترین استاد بھی تھیں اور ان کی ادبی تخلیقات اعلی درجے کی تھیں،جنہیں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔انہوں نے کہا کہ پروفیسر قمر جہاں سے ان کی اور ان کی اہلیہ کی خاصی قربت رہی۔وہ ہمیشہ شاگردوں کی رہنمائی کرتی تھیں اور تحقیق میں ان کی بھرپور مدد کرتی تھیں۔اردو رابطہ کمیٹی کے سکریٹری ڈاکٹر حبیب مرشد خان نے کہا کہ پروفیسر قمر جہاں،ملک کی پروردہ ادیبہ تھیں اور ان کی خدمات کو کبھی فراموش نہیں کیا جا سکتا۔سینیئر جرنلسٹ قمر امان نے کہا کہ پروفیسر قمر جہاں ایک کہنہ مشق ادیبہ،کہانی نویس،ناقد اور اردو زبان کی مخلص خادم تھیں۔ان کے انتقال سے اردو ادب کو ایک ناقابلِ تلافی نقصان ہوا ہے۔انہوں نے کہا کہ ان کی شخصیت نہ صرف ایک استاد کی حیثیت سے نمایاں تھی بلکہ ان کا تخلیقی سفر بھی اردو ادب کی تاریخ میں ایک درخشاں باب کی حیثیت رکھتا ہے۔شاہینہ داؤد ایجوکیشنل ٹرسٹ کے سربراہ،داؤد علی عزیز نے کہا کہ پروفیسر قمر جہاں ایک ایسی شخصیت میں شمار تھیں،جو خاموشی کے ساتھ اردو ادب کی خدمت میں مصروف رہیں۔جنہوں نے کبھی شہرت کی پرواہ نہیں کی بلکہ علمی میدان میں اپنے کردار کو زیادہ اہمیت دی۔نشست میں شریک دیگر شرکاء نے بھی اپنے خیالات کا اظہار کیا،جن میں تسنیم کوثر،خالد بصری،اور مدرسہ تحفظ القرآن کے حافظ شامل تھے۔اس موقع پر ایک اہم تجویز سامنے آئی کہ بھاگلپور کے دیگر نامور ادیب،شاعر،محقق اور ناقد پر ایک سیمینار منعقد کیا جائے۔خاص طور پر ڈاکٹر پروفیسر شاداب رضی،پروفیسر بدرالدین شبنم،پروفیسر مناظر عاشق ہرگانوی،دیگر جیسی شخصیات کے ادبی کارناموں پر تحقیقاتی کام کیا جائے اور ایک جامع کتاب شائع کی جائے۔یہ تجویز نشست میں موجود تمام شرکاء کو پسند آئی اور اس پر سنجیدگی سے غور کرنے کا عزم کیا گیا۔اگر اس تجویز کو عملی جامہ پہنا دیا جاتا ہے تو یہ بھاگلپور کے علمی و ادبی میدان میں ایک تاریخی کارنامہ ہوگا اور اردو ادب کے ان درخشاں ستاروں کو خراجِ عقیدت پیش کرنے کا ایک بہترین ذریعہ بھی ہوگا۔پروفیسر قمر جہاں کی وفات نہ صرف ان کے خاندان، شاگردوں اور عزیزوں کے لیے ایک بڑا صدمہ ہے،بلکہ یہ اردو زبان و ادب کے لیے بھی ایک ناقابلِ تلافی نقصان ہے۔ان کی علمی و ادبی خدمات ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی، اور ان کا کام نسلوں کے لیے مشعلِ راہ رہے گا۔ان کے انتقال پر ہونے والی تعزیتی نشست نہ صرف ان کے لیے خراجِ عقیدت تھی بلکہ اردو ادب کے فروغ کے لیے مزید اقدامات اٹھانے کے عزم کا اظہار بھی تھا۔ امید ہے کہ ان کی یاد میں مجوزہ سیمینار اور کتاب کی اشاعت جلد پایہ تکمیل تک پہنچے اور ان کی علمی خدمات ہمیشہ زندہ پائندہ رہ سکے۔