تل ابیب (یو این آئی) بھوک کو فلسطینیوں کی نسل کُشی کے لیے جنگی ہتھیار بنانے پر اسرائیل کے اندر سے آوازیں اُٹھنے لگیں۔غزہ میں قحط کی صورتحال انتہائی سنگین ہو چکی ہے، اسرائیلی فوج کی مستقل ناکہ بندی کے باعث مصر سرحد پر کھڑے امدادی ٹرکوں کو داخلے کی اجازت نہیں دی جارہی جس کے باعث فلسطینی ایک وقت کی روٹی کو بھی ترس گئے ہیں۔بدھ کو اسرائیلی فوج کی بربریت پر تل ابیب میں نیتن یاہو حکومت کے خلاف احتجاجی مظاہرہ کیا گیا۔رپورٹس کے مطابق آٹے کے تھیلے اور فاقہ کش فلسطینی بچوں کی تصاویر اُٹھائے اسرائیلی مظاہرین نے غزہ میں امداد کی فوری فراہمی اور جنگ بندی کا مطالبہ کیا۔اس کے علاوہ نیویارک میں بھی غزہ کے لوگوں کو بھوکا رکھنے کے خلاف مظاہرہ کیا گیا اور غزہ میں غذا کا بحران ختم کرنے اور ٹرمپ حکومت سے اسرائیل کی حمایت بند کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔دوسری جانب مقبوضہ مغربی کنارے کے شہر رام اللہ میں مظاہرین نے اسرائیل کی بھوک پالیسی کو جنگی اور انسانی جرم قرار دینے کا مطالبہ کیا۔واضح رہے کہ گزشتہ روز غزہ میں غذائی قلت سے مزید 4 بچوں سمیت 15 فلسطینی انتقال کرگئے۔جس کے بعد بھوک اور غذائی قلت سے انتقال کرجانے والوں کی تعداد اب 101 ہوگئی ہے۔فلاحی تنظیم سیو دی چلڈرن کا کہنا ہے غزہ میں صورتحال تباہ کُن ہے، ہر فرد بھوک کا شکار ہے۔اقوام متحدہ کی فلسطینی پناہ گزینوں کی ایجنسی اونروا نے انکشاف کیا ہے کہ غزہ میں 10 لاکھ سے زائد بچے شدید بھوک کا شکار ہیں۔اونروا کے مطابق مارچ سے اب تک اسرائیل نے صرف محدود مقدار میں خوراک اور انسانی امداد غزہ میں داخل ہونے دی ہے جو موجودہ ضروریات کے لیے انتہائی ناکافی ہے۔ایجنسی کا کہنا ہے کہ امدادی سامان کی بندش اور مستقل بمباری کے باعث بچوں کی صحت اور نشوونما کو سنگین خطرات لاحق ہو چکے ہیں۔