ایل جی کی گفتگو کے بعد خواتین داخلے پر مشروط رضامندی ظاہر کی، مسجد کا وقار مجروح کرنےوالی لڑکیوں کی وجہ سے مسجد انتظامیہ نے اٹھایا تھا سخت قدم
عامر سلیم خان
نئی دہلی، سماج نیوز سر وس:مسجد کا وقار بچانے کیلئے شاہی جامع مسجد دہلی انتظامیہ نے جب سخت قدم اٹھایا تو ہنگامہ مچ گیا۔ وہ لوگ بلبلانے لگے جو مسجد کا وقار مجروح ہونے پر مسجد انتظامیہ کیخلاف طعن وتشنیع کرتے نہیں تھک رہے تھے۔بات مئی 2019 کی ہے جب کچھ لڑکے اور لڑکیوں نے مسجد کا وقار مجروح کرتے ہوئے وہاں ٹک ٹاکنگ کی تھی۔ یہ وہی میڈیا تھی جس نے وہ ویڈیو ادھر ادھر سرکلیٹ کیا اور خوب ہنگامہ مچایا تھا ۔ لیکن جب مسجد انتظامیہ نے ایسے حالات کے پیش نظر خواتین اور خاص طورپر اکیلی لڑکیوں کے داخلے پر پابندی کا نوٹس لگایا تو ایک بار پھر ہنگامہ مچ گیا۔لیفٹیننٹ گورنر اور دہلی خواتین کمیشن نے بھی معاملہ میں مداخلت کی۔ ایل جی ہاو¿س ذرائع کے مطابق لیفٹیننٹ گورنر وی کے سکسینہ نے شاہی امام مولانا سید احمد بخاری سے بات کی، جس کے بعد خواتین کو مشروط اجازت دیدی گئی ہے۔
اطلاعات کے مطابق معاملہ میں ایل جی نے شاہی امام سے خواتین کے داخلے پر پابندی کا حکم واپس لینے کی درخواست کی ہے۔بعد ازاں شاہی امام مولانا سید احمد بخاری نے خواتین کے عدم داخلے کے حکم کو منسوخ کرنے پر رضامندی ظاہر کی،تاہم یہ شرط بھی لگائی ہے کہ جامع مسجد کے زائرین اس کے وقار اور تقدس کو برقرار رکھیں۔ مسجد نماز اور عبادت کیلئے ہے جس کیلئے کوئی امتناع نہیں لیکن مسجد کا وقار مجروح کیاگیا تو تادیبی کارروائی کیلئے مسجد انتظامیہ مجبور ہوگی۔ لیفٹیننٹ گورنر کی مداخلت اور شاہی امام سے بات کرنے کی راج بھون کے ذرائع نے اطلاع دی ہے۔ آپ کو بتاتے چلیں کہ دہلی کی جامع مسجد میں اکیلی لڑکیوں کے داخلے پر پابندی لگا دی گئی ہے۔ یہ پابندی اس لئے لگائی گئی ہے کیونکہ مسجد کا احترام جاتے رہنے کے واقعات ہورہے تھے۔مسجد کے پی آر او کا کہنا ہے کہ لڑکیاں یہاں آکر میٹنگ کرتی ہیں اور ویڈیوز بناتی ہیں۔
دہلی کی مشہور جامع مسجد کی انتظامیہ نے مرکزی دروازوں کے باہر نوٹس لگا دیا تھا جس میں لڑکیوںکے داخلے پر پابندی عائد کی گئی تھی، خواہ وہ اکیلے ہوں یا گروپس میں۔ جب تنازع بڑھا تو مسجد کے شاہی امام نے آج 24 نومبر کو کہا کہ یہ حکم نماز پڑھنے کیلئے آنے والی خواتین پر لاگو نہیں ہے۔ شاہی امام کے مطابق یہ فیصلہ اس عظیم ورثے کے ڈھانچے کے احاطے میں کچھ واقعات کی اطلاع کے بعد کیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جامع مسجد ایک عبادت گاہ ہے، اس کےلئے خوش آمدید کہتے ہیں، لیکن لڑکیاں اکیلی آتی ہیں اوربعد میں مسجد کا وقار مجروح کرتی ہیں، یہ جگہ اس لئے نہیں ہے، اس پر پابندی ہے ، نماز پر کوئی پابندی نہیں ہے۔پتہ چلا کہ ایسے حالات کو روکنے کیلئے کوئی قدم اٹھایا گیا تو دہلی خواتین کمیشن نے نوٹس جاری کردیا۔
مسجد انتظامیہ کا کہنا ہے کہ فیملی کے ساتھ آنے پر کوئی پابندی نہیں ہے،خواتین کے داخلے پرکوئی پابندی نہیں لگائی گئی ہے۔ اکیلی لڑکیاں جو یہاں آتی ہیں، لڑکوں کو وقت دیتی ہیں اور ویڈیوز بنائی جاتی ہیں۔ یہ پابندی صرف ان قبیح چیزوں کو روکنے کےلئے لگائی گئی ہے۔ انہوں نے مزید کہاکہ شادی شدہ جوڑوں کے آنے پر کوئی پابندی نہیں ہے۔ لیکن یہاں کسی کو وقت دینا، مسجد کو جلسہ گاہ بنانا، اسے پارک سمجھنا، ٹک ٹاک ویڈیوز بنانا، ڈانس کرنا، کسی بھی مذہبی مقام کےلئے موزوں نہیں۔ چاہے وہ مندر ہو، مسجد ہو، گرودوارہ ہویا کوئی اور عبادت گاہ ہو۔اس اثناءخواتین کمیشن کی چیئرپرسن نے مسجد انتظامیہ کافیصلہ خواتین کے ساتھ امتیازی سلوک سے جوڑدیاہے۔کمیشن چیئرپرسن سواتی مالیوال نے جامع مسجد میں خواتین کے داخلے پر پابندی کو غلط قرار دیاہے۔
محترمہ سواتی مالیوال نے اپنے ٹویٹر اکاو¿نٹ پر لکھا کہ جامع مسجد میں خواتین کے داخلے کو روکنے کا فیصلہ بالکل غلط ہے۔ جتنا مرد کو عبادت کا حق ہے اتنا ہی عورت کو بھی ہے۔وہ لوگ بھی میدان میں کود پڑے ہیں جنہیں مسجد کے وجود سے ہی مبینہ” الرجی“ ہے۔ وشو ہندو پریشد ترجمان ونود بنسل نکل آئے اور کہنے لگے کہ مسلم بنیاد پرستوں کی یہی ذہنیت ہے جو بھارت کو شام بنانا چاہتے ہیں۔ ایران کے واقعات سے سبق نہیں لیا جا رہا، یہ بھارت ہے۔ یہاں کی حکومت ’بیٹی بچاو¿، بیٹی پڑھاو¿‘ پر زور دے رہی ہے۔ لڑکیاں تنہا چاند پر جا رہی ہیں اور مسلم بنیاد پرست انہیں جامع مسجدمیں جانے سے روک رہے ہیں۔ لیکن معاملہ کا دلچسپ پہلو یہ بھی ہے کہ اسی قبیل کی تنظیمیں ایک تہوار ایسا بھی آتا ہے جب انہیںلڑکیوں کے ساتھ بدتمیزی کرتی ہیںاور ویڈیو بناکر خواتین کے وقار کو سربازار مجروح کرتی ہیں جن کی آج یہ وکالت کرنے پر اتارو ہورہی ہیں۔