عبدالعزیز
9831439068
اردو میں تعلیم کا لفظ، دو خاص معنوں میں مستعمل ہے ایک اصطلاحی دوسر ے غیر اصطلاحی، غیر اصطلاحی مفہوم میں تعلیم کا لفظ واحد اور جمع دونوں صورتوں میں استعمال ہو سکتا ہے اور آدرش، پیغام، درسِ حیات، ارشادات، ہدایات اور نصائح کے معنی دیتا ہے۔ جیسے آنحضرت کی تعلیم یا تعلیمات، حضرت عیسیٰ کی تعلیم یا تعلیمات اور شری کرشن کی تعلیمات، کے فقروں میں، لیکن اصطلاحی معنوں میں تعلیم یا ایجوکیشن سے وہ شعبہ مراد لیا جاتا ہے جس میں خاص عمر کے بچوں اور نوجوانوں کی ذہنی اور جسمانی نشو و نما، تخیلی و تخلیقی قوتوں کی تربیت و تہذیب، سماجی عوامل و محرکات، نظم و نسق مدرسہ، اساتذہ، طریقہ تدریس، نصاب، معیار تعلیم، تاریخ تعلیم، اساتذہ کی تربیت اور اس طرح کے دوسرے موضوعات زیر بحث آتے ہیں۔علامہ اقبال کے تعلیمی تصورات یا فلسفہ تعلیم کے متعلق کتب و مقالات کی شکل میں اب تک جو کچھ لکھا گیا ہے اس میں تعلیم کے اصطلاحی مفہوم سے کہیں زیادہ تعلیم کے عام مفہوم کوسامنے رکھاگیا ہے۔ یعنی جو کچھ لکھا گیا ہے اس میں درس و تدریس، تعلیم یا طلبہ و مدارس کے توسط سے پیدا ہونے والے مسائل سے بحث کرنے کی بجائے عام طور پر وہی باتیں کہی گئی ہیں جواقبال کے فکرو فن یا فلسفہ خودی و بے خودی یا تصور فرد و جماعت کے حوالے سے، ان کو ایک بزرگ مفکر یا عظیم شاعر ثابت کرنے کےلئے کہی جاتی ہیں، حالانکہ ان باتوں کا تعلق، تعلیم کے اصطلاحی مفہوم سے نہیں بلکہ تعلیم کے اس عام مفہوم سے ہے جس کے دائرے میں ہر بزرگ اور صاحبِ نظر فلسفی یا شاعر کا پیغام درس حیات آ جاتا ہے۔مانا کہ اقبال کے تصور ِ تعلیم کے ضمن میں ایسا کرنا بعض وجوہ سے ناگزیر ہے اور اقبال کے مقاصد ِتعلیم کے تعین کے سلسلے میں ان کے فلسفہ خودی و بے خودی یا فلسفہ حیات کو بحرحال سامنے رکھنا پرتا ہے۔ لیکن اقبال کے عام فلسفہ حیات کو اصطلاحی معنوں میں تعلیم یا فلسفہ تعلیم سے تعبیر کرنا یا محض ان دلائل کی بنیاد پر انہیں ایک عظیم مفکر تعلیم یا ماہر تعلیم کہنا مناسب نہیں معلوم ہوتا۔ اس لیے کہ بقول قاضی احمد میاں اختر جو نا گڑھی:” اقبال نہ تو فن ِ تعلیم کے ماہر تھے نہ انہوں نے اس فن کی تحصیل کی تھی، نہ اس موضوع پر انہوں نے کوئی کتاب لکھی بجز اس کے کہ کچھ مدت تک بحیثیت پروفیسر کالج میں درس دیتے رہے کوئی مستقل تعلیمی فلسفہ انہوں نے نہیں پیش کیا۔ “بایں ہمہ، اقبال کے تعلیمی افکا ر سے کلیتاً صرف نظر نہیں کیا جا سکتا۔ انہوں نے تعلیم کی فنی اور عملی صورتوں پر غور کیا ہے مسائل تعلیم کو اپنی توجہ کا مرکز بنایا ہے۔ اپنے فلسفہ حیات میں مناسب جگہ دی ہے۔ تعلیم کے عام معنی و اثرات پر روشنی ڈالی ہے اس کے ڈھانچے اغراض اور معیار کو موضوع گفتگو بنایا ہے اور اپنے عہد کے نظام ِ تعلیم پر تنقیدی نگاہ ڈالی ہے۔ مدرسہ، طلبہ، اساتذہ اور نصاب، سب پر اظہار خیال کیا ہے صرف مشرق نہیں، مغرب کے فلسفہ تعلیم اور نظام ِ کار کو بھی سامنے رکھا ہے۔ دونوں کا ایک دوسرے سے مقابلہ کیا ہے ان کے درمیان حد ِ فاضل کھینچی ہے۔ خرابیوں اور خوبیوں کا جائزہ لیا ہے اور یہ بتایا ہے کہ زندگی کو کامیاب طریقے سے برتنے اور اس کی مزاحمتوں پر قابو پالینے کے لیے کس قسم کی تعلیم اور نظام تعلیم کی ضرورت ہے۔افراد اور اقوام کی زندگی میں تعلیم و تربیت کو وہ بنیادی اہمیت حاصل ہے کہ افراد کی ساری زندگی کی عمارت اسی بنیاد پر تعمیر ہوتی ہے اور اقوام اپنے تعلیمی فلسفہ کے ذریعہ ہی اپنے نصب العین، مقاصد ِ حیات، تہذیب و تمدن اور اخلاق و معاشرت کا اظہار کرتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اقبال نے قومی زندگی کے اسی اہم پہلو پر گہرا غور و خوض کیا ہے اور اپنے افکار کے ذریعہ ایسی راہ متعین کرنے کی کوشش کی ہے جو ایک زندہ اور جاندار قوم کی تخلیق کا باعث بن سکے۔ابتدا میں تو اقبال نے قوم کے تعلیمی پہلو پر کوئی خاص توجہ نہیں دی۔ خاص طور پر اپنی شاعری کے پہلے اور دوسرے دور میں اس موضوع پر انہوں نے کچھ نہیں لکھا البتہ آخر میں انہوں نے اس قومی پہلو کو بھر پور اہمیت دی۔ اور ” ضرب کلیم‘ میں تو ”تعلیم و تربیت“ کا ایک مستقل عنوان قائم کیا ہے۔ اس کے علاوہ بھی جابجا ایسے اشعار ملتے ہیں۔ جن میں صحیح تعلیم اور اس کے مقاصد کی نشان دہی کی گئی ہے۔ بقول ڈاکٹر سید عبد اللہ:
” اقبال نے تعلیم کے عملی پہلوؤں پر کچھ زیاد ہ نہیں لکھا مگر ان کے افکار سے ایک تصور تعلیم ضرور پیدا ہوتا ہے۔ جس کو اگر مرتب کر لیاجائے تو اس پر ایک مدرسہ تعلیم کی بنیاد رکھی جا سکتی ہے۔ “
مروج نظام ہائے تعلیم:اقبال نے زمانے میں دو نظام تعلیم ملک میں پہلو بہ پہلو رائج تھے ایک تو قدیم دینی نظام ِ تعلیم تھا جو مذہبی مدارس میں رائج تھا۔ یہ صدیوں سے ایک ہی ڈگر پر چلا آ رہا تھا۔ وقت کے تقاضوں نے اس میں کوئی تبدیلی پیدا نہیں کی تھی اور اس کے باوجود اسے اپنی جگہ مکمل سمجھا جاتا تھا۔ دوسرا نظام حکمران انگریز قوم کا رائج کردہ تھا جو لارڈ میکالے کے فکر کی پیداوار تھا اس کا مقصد نوجوانوں کو حصول ِ علم میں مدد دینے۔ انتظامی مشینر ی کے کل پرزے ڈھانچے کے علاوہ ایسی نسل تیار کرنا تھا جو ذہناً اپنے ملک و قوم کی بجائے حکمران قوم سے وابستہ ہو۔ان دو نوں نظاموں میں سے کوئی بھی ایسا نہیں تھا جو ملک اور قوم کی امنگوں اور مقاصد کی ترجمانی کرنے کی اہمیت رکھتا ہو۔ چنانچہ اقبال نے ان پر بھر پور تنقید کی ہے۔
قدیم دینی مدارس کی جامد تعلیم:اقبال نے دیکھا تھا کہ قدیم دینی مدارس میں قرآن و حدیث کی تعلیم جس طریقہ سے دی جاتی ہے۔ وہ طلباءکو ارکانِ اسلام اور فقہی مسائل سے تو آگا ہ کر دیتی ہے لیکن وہ دین کی روح سے آشنا نہیں ہوتے، مشاہدہ کائنات اور تسخیر کائنات کے مضامین کا ان کے نصاب سے کوئی تعلق نہیں ہے ان مدارس کے فارغ التحصیل طلباءزندگی کے گوناگوں مسائل کو سمجھنے اور انہیں حل کرنے کی صلاحیت سے عاری رہتے ہیں۔ اور بدلتے ہوئے زمانہ کے تقاضوں کا جواب نہیں دے سکتے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ اس نظام تعلیم نے کئی بڑے علما ءبھی پیدا کیے جنہوں نے دینِ حق کو زندہ رکھنے کی خدمت انجام دی لیکن ان مدرسوں کے تربیت یافتہ زیادہ تر لوگ وہی تھے جنہیں ”ملا“ کہا جاتا ہے۔ اور جن کی خصوصیات میں تنگ نظری، تعصب، جہالت اور رجعت پسندی نمایاں رہی ہیں۔ اقبال نے ”بال جبریل “ میں ایک نظم ”م±لا“ انہی کو پیش نظر رکھ کر لکھی ہے۔
میں بھی حاضر تھا وہاں ضبط سخن کر نہ سکا
حق سے جب حضر ت م±لا کو ملا حکم بہشت
عرض کی میں نے الہٰی میری تقصیر معاف
خوش نہ آئیں گے اسے حور و شراب و لب کشت
ملا سے اقبال اس لیے بیزار ہیں کہ اس کے پاس دین ہے دین کی حرارت نہیں، وہ دین کی روح سے بے گانہ ہو گیا ہے۔ اس کی نماز، روزہ، سب رسمی بن گئے ہیں اور حیات کے ان اعلیٰ مقاصد تک اس کی پہنچ نہیں رہی جو دین کا نصب العین ہیں:
اٹھا میں مدرسہ و خانقا ہ سے غمناک
نہ زندگی، نہ محبت، نہ معرفت نہ نگاہ
تیری نماز میں باقی جلال ہے نہ جمال
تیری اذان میں نہیں ہے مری سحر کا پیام
قوم کیا چیز ہے، قوموں کی امامت کیاہے
اس کو کیا سمجھیں یہ بے چار ے دو رکعت کے امام
اقبال کو دینی عالموں سے جو توقع ہے اور ان کے علم کا جو تقاضا ہے وہ اپنی قوم کے نوجوانوں کی اصلاح اور صحیح تعلیم و تربیت ہے اسی لیے وہ تما م تر مایوسی کے باوجود دعوت دیتے ہیں،
اللہ رکھے تیرے جوانوں کو سلامت
دی ان کو سبق خود شکنی خود نگر ی کا
جدید انگریزی مدارس کی گمراہ تعلیم:قدیم دینی مدارس کی جامد، بے روح اور زمانہ کے تقاضوں سے نا آشنا تعلیم کے ساتھ اقبال جدید انگریز ی تعلیم سے بھی نالاں تھے اس کی وجہ یہ تھی کہ یہ تعلیم سراسر مادیت پر مبنی تھی اور دین و مذہب سے اس کا کوئی واسطہ نہیں تھا۔ ان کی نظر میں یہ نظام ِ تعلیم دین کے خلاف ایک بہت بڑی سازش تھی جوانوں کو اعلیٰ اسلامی اقدار سے محروم کر رہی تھی۔ یہ تعلیم ضرورت سے زیادہ تعقل زدہ تھی اس نے الحاد اور بے دینی پھیلانے کی بھر پور کوشش کی ہے جسے اقبال نفر ت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔
خوش تو ہیں ہم بھی جوانوں کی ترقی سے مگر
لب خنداں سے نکل جاتی ہے فریاد بھی ساتھ
ہم سمجھتے تھے کہ لائے گی فراغت تعلیم
کیا خبر تھی کہ چلا آئے گا الحاد بھی ساتھ
اور یہ اہلِ کلیسا کا نظام ِ تعلیم
ایک سازش ہے فقط دین و مروت کے خلاف
اقبال رسمی اور جامد تعلیم سے اس قدر نالاں نہیں جتنے جدید مغربی تعلیم سے ہیں مغربی تعلیم کے بارے میں وہ بہت تلخ ہیں اس کی کئی وجوہ ہیں جن میں سے چند درج ذیل ہیں۔
مغربی تعلیم کی بنیاد ہی مادیت پر ستی ہے۔ وہ عقل پرستی، تن پروری، تعیش و آرام کی دلدادگی کا سبق دیتی ہے اس سے مسلمان نوجوانوں کے عقائد متزلزل ہو جاتے ہیں مغربی تہذیب کی اندھی تقلید ان سے ان کا نصب العین چھین لیتی ہے اور انہیں اندھیروں میں بھٹکنے کے لیے چھوڑ دیتی ہے یہ بے دینی اور الحاد انہیں احساس ِ کمتری میں مبتلا کر دیتی ہے اور ان شاہیں بچوں کو خاکبازی کا سبق دے کر انہیں توحید کے نظریہ سے دور لے جاتی ہے۔
گلا تو گھونٹ دیا اہل مدرسہ نے ترا
کہاں سے آئے صدا لاالہ الا اللہ
شکایت ہے مجھے یا رب خداوندانِ مکتب سے
سبق شاہین بچوں کو دے رہے ہیں خاکبازی کا
ترے صوفے ہیں افرنگی، ترے قالین ایرانی
لہو مجھ کو رلاتی ہے جوانوں کی تن آسانی
مغربی تعلیم کی روح بلند مقاصد سے خالی ہے اس کا نصب العین صرف معاش کا حصول ہے اور یہ نوجوانوں کو پیٹ کا غلام بنا کر اسے دنیاوی لذتوں میں ا±لجھا دیتی ہے اس طر ح بلند مقاصد سے وہ بالکل عاری ہو جاتے ہیں۔
وہ علم نہیں زہر ہے احرار کے حق میں
جس علم کا حاصل ہو جہاں ِ میں دو کفِ جو
عصر حاضر ملک الموت ہے تیرا جس نے
قبض کی روح تری، دے کے تجھے فکر معاش
فیض فطر ت نے تجھے دیدہ شاہیں بخشا
جس میں رکھ دی ہے غلامی نے نگاہِ خفاش