عامر سلیم خان
نئی دہلی :سماج نیوز سروس:آج اپنے حقوق کی لڑائی لڑنے والوں کو ’ دہشت گرد‘ اور ’ ملک دشمن عناصر‘ کہہ دیا جاتا ہے۔ ریاست کے زیر انتظام فرقہ وارانہ فسادات اور دہشت گردی کیخلاف ہماری جدوجہد کل بھی تھی اور مستقبل میں بھی جاری رہے گی۔ یہ باتیں آج اس وقت کہی گئیں جب 1984 کے سکھ قتل عام کی 38ویں برسی پر درجن بھر سماجی اور ملی تنظیموں نے احتجاج کیا تھا۔ یہ احتجاج یہاں نئی دہلی کے جنتر منتر پر تھا، جس میں بڑی تعداد میں مظاہرین لیڈروں نے کانگریس اور بی جے پی کو نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ یہ دونوں ہی پارٹیاں فرقہ وارانہ تشدد اور طبقات میں تقسیم کیلئے ذمہ دار ہیں اور یہ ساری باتیں یہ پارٹیاں اس لئے کرتی ہیں تاکہ وہ اقتدا پر قابض رہ سکیں، اس لئے ان پارٹیوں سے چھٹکارا ضروری ہے۔
اس احتجاج کے مرکزی بینر پر لکھا کہ ’ ایک پر حملہ سب پر حملہ ہوگا‘اور یہ کہ 1984 کے سکھ قتل عام کے ذمہ داروں کو سزادیجائے۔1984، 1992 اور 2002 فسادات کے مجرموں کو سزادی جائے۔ لوک راجن سنگٹھن کے اس مشترکہ احتجاج میں جو سماجی تنظیمیں شامل تھیں ان میں کمیونسٹ غدر پارٹی آف انڈیا، جماعت اسلامی ہند، سٹیزن فار ڈیموکریسی، ویلفیئر پارٹی آف انڈیا، سکھ فورم، پروگریسو ویمن آرگنائزیشن، لوک پکشا، جن سنگھرش کوآرڈی نیشن کمیٹی، آل انڈیا مسلم مجلس مشاورات، سی پی آئی (ایم ایل) نیو پرولتارین، ہند نوجوان ایکتا سبھا، اور مزدور ایکتا کمیٹی تھیں۔ لوک راج سنگٹھن کی سچریتا نے کہا کہ 38 سال قبل یکم نومبر 1984 کو اسی دہلی شہر میں سکھوں کی ہولناک نسل کشی کی گئی تھی۔ ان حملوں کی قیادت اس وقت مرکزی حکومت میں بیٹھی کانگریس پارٹی کے سرکردہ لیڈروں نے کی تھی۔لیکن آج تک حکومت میں شامل کسی سیاسی جماعت نے اس قتل عام کے منتظمین اور مجرموں کو سزا نہیں دی۔
لوک راج سنگٹھن کے صدر ایس راگھون نے کہا کہ گزشتہ 38 سالوں کے دوران ریاستی دہشت گردی کو منظم طریقے سے فروغ دیا گیا اور ریاست کی طرف سے منظم فرقہ وارانہ تشدد کے واقعات بار بار ہوتے رہے ہیں۔ فرقہ وارانہ نسل کشی کرنیوالوں اور عوام کے اتحاد پر حملہ کرنے والوں کو کوئی سزا نہیں دی جاتی بلکہ ریاست کے اعلیٰ ترین عہدوں پر فائز کیا جاتا ہے۔ دوسری طرف اپنے حقوق کیلئے لڑنے والے لوگوں کو ’دہشت گرد‘اور’ملک دشمن عناصر‘کہا جاتا ہے۔ بی جے پی اور کانگریس پارٹی جیسی سیاسی جماعتیں قومی اتحاد کی حفاظت کی بات کرتی ہیں، جب کہ وہ عوام کو تقسیم کرنے، حکمرانوں کے مفادات کی تکمیل کیلئے انتھک محنت کرتی ہیں۔ جماعت اسلامی ہند کے مسٹر انعام الرحمن نے کہا کہ 1984 کے بڑے جرم کو فراموش نہیں کیا جا سکتا اور اس پر ہر سال جلسے کر کے یہ پیغام دیتے رہیں گے کہ ہم ان جرائم کو برداشت نہیں کرتے۔
دی سکھ فورم کے للی سنگھ ساہنی نے کہا کہ 1984 کے مجرموں کو ہم معاف بھی کر سکتے ہیں، لیکن ابھی تک یہ ثابت نہیں ہو سکا کہ مجرم کون ہیں۔کمیونسٹ غدر پارٹی کے برجو نائک نے کہا کہ جب کئی لوگوں کے قتل عام کے بارے میں خبردار کرنے کے بعد بھی وزیر داخلہ کارروائی نہیں کرتے ہیں تو اس کا صاف مطلب ہے کہ یہ فساد نہیں تھا بلکہ ان کے ہاتھوںکیا ہوا جرم تھا۔ ویلفیئر پارٹی آف انڈیا کے محمد عارف نے نشاندہی کی کہ 38 سال قبل سکھوں کی نسل کشی کوئی اچانک فساد نہیں تھا کیونکہ اگر ریاست فساد نہیںچاہتی توبھارت میں کوئی بھی فساد چند گھنٹوں سے زیادہ نہیں چل سکتا۔ 1984۔ایڈوکیٹ شاہد علی نے کہا کہ ہمارے اسلاف نے قربانیاں اس لیے نہیں دیں کہ ایسی بیوقوف جماعتیں ہم پر حکومت کریں۔ انسانی فطرت انسانیت ہے لیکن 1984 کی نسل کشی کرنے والے انسان نہیں بلکہ شیطان تھے۔ مزدور ایکتا کمیٹی کے اسپیکر سنتوش کمار اور پوروگامی مہیلا سنگٹھن کی جانب سے پونم شرما نے کہا کہ کہا جاتا ہے کہ اتنا پرانا واقعہ بھول جانا چاہئے لیکن جب اس طرح کے قتل بار بار ہوتے ہیں تو ہم اسے کیسے بھول سکتے ہیں۔
دیگر مقررین میں ’انقلابی مزدورکیندر‘ کے منا پرساد نے کہا کہ ہندوستانی ریاست کے ہاتھ آزادی کے بعد سے خون سے رنگے ہوئے ہیں کیونکہ یہ ریاست اجارہ دار سرمایہ داروں کے مفاد میں کام کرتی ہے۔ وہ عوامی مفاد کیخلاف نجکاری کا پروگرام مسلط کر کے مزدور دشمن قانون لا رہی ہے۔ ویلفیئر پارٹی آف انڈیا کے سراج نے ظلمی راج کو للکارتے ہوئے کچھ شعر پیش کئے اور ناانصافی کے معاملہ پر سال بہ سال عوامی جلسے کرنے پر لوک راج سنگٹھن کا شکریہ ادا کیا۔ سچریتا نے میٹنگ کا اختتام کرتے ہوئے کہا کہ اس طرح کے گھناؤنے جرم کے خلاف جدوجہد اس وقت تک جاری رہے گی جب تک ہم مل کر ایک ایسی ریاست قائم نہیں کرتے جو سب کے حقوق کا تحفظ کرے اور سب کیلئے خوشی اور سلامتی کو یقینی بنائے۔