330 سال قدیمی اسکول کی تاریخ پرپروفیسر عذرا رزاق اورڈاکٹرایم اطیب صدیقی ایڈوکیٹ کی مشترکہ کوشش ضخیم کتاب کی شکل میں سامنے آئی
عامر سلیم خان
نئی دہلی: پرانی دہلی کے اجمیری گیٹ پر واقع اینگلو عربک اسکول کے قیام کے 330 سال مکمل ہونے پراسکول کے دو سابق منتظمین نے اس کی تاریخ اور میراث کو بیان کیا ہے۔ اس اسکول کی ابتداءمدرسہ غازی الدین سے ہوئی تھی، جسے 17ویں صدی کے آخر میں اورنگ زیب کے دور میں ایک رئیس میر شہاب الدین نے تعمیر کیا تھا۔ میر شہاب الدین، جنہیں غازی الدین خان بھی کہا جاتا ہے، حیدرآباد کے پہلے نظام کے والد تھے۔ ان کا انتقال 1710 میں ہوا اور اجمیری گیٹ کے قریب اسی اسکول کے کیمپس میں مدفون ہےں۔ آج یہ اسکول شہر کے سب سے بڑے اسکولوں میں سے ایک ہے جس میں تقریباً 2,000 طلبہ زیر تعلیم ہیں جن میں زیادہ تر فصیل بند شہر کے ہوتے ہیں۔
آکسفورڈ یونیورسٹی پریس سے شائع ہونےوالی کتاب، کا عنوان ہے The School at Ajmeri Gate: Delhi’s Educational Legacyپروفیسر عذرا رزاق اور ایڈوکیٹ اطیب صدیقی نے لکھی ہے، جسمیں اسکول کی تفصیلی تاریخ ہے۔ مصنفین کے مطابق کتاب ایک ایسے تعلیمی سفر کی کھوج کرتی ہے جس کا آغاز تقریباً تین صدیوںپہلے ہوتا ہے۔پروفیسر عذرا رزاق کہتی ہیں کہ” اس اسکول کے وجود سے پہلے، اجمیری گیٹ کے کیمپس میں غازی الدین مدرسہ اور اس کا جانشین مشہور دہلی کالج واقع تھا۔ اس کتاب میں 19ویں صدی کے اواخر میںاینگلو عربک اسکول کے قیام سے لے کر اس کے سفر20ویں صدی کے پہلے نصف میں اس کی ترقی، تقسیم ملک کے وقت اس کے بند ہونے اور آزادی کے بعد اس کی حصولیابیوں اور مصیبتوں کو دستاویز کیا گیا ہے“۔
جامعہ ملیہ اسلامیہ میں ڈاکٹر کے آر نرائنن سنٹر آف دلت اینڈ مائنارٹیز اسٹڈیزکی سابق ڈائریکٹر پروفیسرعذرا رزاق نے مسلمانوں کی سماجی، اقتصادی اور تعلیمی حالت پر سچر کمیٹی میں سینئر محقق کے طور پر بھی کام کیا ہے۔پروفیسر رزاق ’دہلی ایجوکیشن سوسائٹی‘ کی سکریٹری تھیںجو اسکول کا انتظام وتانصرام چلاتی ہے۔ انہوں نے 2007 اور 2014 کے درمیان تقریباً تین مرتبہ سکریٹری کے طور پر خدمات انجام دی ہیں۔ شریک مصنف،ڈاکٹر اطیب صدیقی ایڈوکیٹ 1994 سے دہلی ایجوکیشن سوسائٹی میں مختلف عہدوں پر فائز رہے ہیں اور 2009 سے 2014 تک اسکول کے منیجر بھی رہے۔ 1857 میں پہلی جنگ آزادی اور کچھ ریکارڈ تقسیم کے دوران جلا دیئے گئے تھے۔ چنانچہ ان دونوں کو اپنی تحقیق مکمل کرنے اور کتاب شائع کرنے میں ایک دہائی سے زیادہ کا عرصہ لگا۔پروفیسرعذرا رزاق نے کہاکہ اسکول کے بارے میں اس لئے لکھنے کی ضرورت تھی کیونکہ یہ صدیوں پرانا ادارہ بدقسمتی سے تعلیمی اور علمی حلقوں میں معروف نہیں۔ مصنفین نے کہاکہ اسکول اور اس کا کیمپس مسلم کمیونٹی کیلئے اہم ہیں جس کو یہ پورا کرتا ہے۔ اگرچہ قیام کا صحیح سال بحث کا موضوع ہے، اس کے قیام سے متعلق ایک مشہور تاریخ 1692 ہے۔
ابتدائی نصف میںیہ ایک مدرسہ تھا اور 1825 میں انگریزوں نے اسی کیمپس میں دہلی کالج قائم کیا۔ آکسفور یونیورسٹی او رعلی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی طرح مسلم کمیونٹی کےلئے یہ ادارہ ہمیشہ سے شاندار ادارہ سمجھا جاتا رہاہے۔ مسٹر صدیقی نے کہا کہ انگریزوں کے دور میںا سکول کےلئے ایک انگلش سیکشن اور ایک اورینٹل سیکشن تھا۔ لوک کہانیوں میں لکھا ہے کہ آزادی کی پہلی جنگ میں حصہ لینے والے بہت سے بہادر ہندوستانیوں کو اس کیمپس میں پھانسی دی گئی تھی۔پرانی دہلی والے مسلمانوں کےلئے اس عمارت کے ساتھ ایک جذباتی رشتہ ہے۔ اس کمیونٹی کےلئے یہ گمشدہ اور لال قلعہ کی نمائندگی کرتا ہے۔ پروفیسر رزاق نے کہا کہ مسجد اور اس کے احاطے میں ایک درگاہ اس تعلق کو مزید بڑھاتی ہے۔ پروفیسر رزاق نے مزید کہا کہ ادارے کے پاس9 ایکڑ اراضی ہے اور کیمپس کا اپنا ایک دلکش منظر ہے۔ فصیل بند شہر (والڈ سٹی) کی کئی نسلوں نے یہاں تعلیم حاصل کی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ ایک ایسا اسکول ہے جس میں دہلی کا تقریباً پورا شہر دلچسپی رکھتا ہے۔ اطیب صدیقی نے کہا کہ اسکول کو دہلی سرکار کے دہلی اسکول ایجوکیشن ایکٹ کے تحت ریگولیٹ کیا جاتا ہے اور پوری جائیداد دہلی ایجوکیشن سوسائٹی کے تحت ہے۔ جے ایم آئی کے وائس چانسلر اپنی حیثیت میں سوسائٹی کے صدر ہوتے ہیں۔ یہ ایک وقف املاک ہے اور وقف بورڈ بھی اس میں شامل ہے۔ آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا بھی اس ڈھانچے کی حفاظت کی نگرانی کرتا ہے۔
کتاب صرف اسکول کے بارے میں نہیں ہے، یہ عمارت کی تاریخ، برادری کی تاریخ اور اس وقت کی تاریخ ہے۔ یہ اسکول کی میراث نہیں ہے، یہ کمیونٹی اور کمیونٹی کے سامنے درپیش چیلنجز کی عکاسی ہے۔ یہ ایک مسلم تعلیمی ادارے کے کام کاج کے بارے میں بھی ایک قسم کا خود معائنہ ہے اور اس کا کیا نقصان ہواہے یا ہورہا ہے، یہ کتاب کمیونٹی کو دکھایا جانے والا آئینہ ہے،“ ۔ڈاکٹر اطیب صدیقی ایڈوکیٹ کہتے ہیں کہ مجھے لندن اور پیرس کے اسکول کے سابق طلبہ کی طرف سے کتاب اور اسکول پر بات کرنے کےلئے دعوت نامے موصول ہوئے ہیں۔نامور ماہر تعلیم کرشن کمار نے کتاب کے پیش لفظ میں لکھا ہے کہ اینگلو عربک اسکول کی کہانی کے راوی ایک بھی ایسا لفظ کہے بغیرقاری کی سمجھداری پر چھوڑ دیتے ہیں جسے کوئی سیاسی کہہ سکتا ہے۔خاص طور پر جب ہمیں اسے تعلیم کے تناظر میں استعمال کرنے کی ضرورت ہو۔ مصنفین یہ ظاہر کرتے ہیں کہ اینگلو عربک اسکول تنوع کی قبولیت کی علامت تھا اور اب بھی ہے۔کتاب پر دس سال کی محنت لگی ہے۔ اس کی صحیح اور نایاب تاریخ منظر عام پر لانے کیلئے ڈاکٹر اطیب صدیقی نے تین سال برٹش لائبریری کوبھی چھان مارا ہے۔ کتاب کی اہمیت یہ نہیں کہ اسے ایک قانونی ماہر اور ایک سماجیات کی پروفیسر نے لکھا ہے بلکہ اہمیت یہ ہے کہ اسے آکسفورڈ یونیورسٹی پریس ( لندن) نے شائع کیاہے۔ مسٹر صدیقی نے بتایا کہ ”دی اسکول ایٹ اجمیری گیٹ“ نامی یہ کتاب اینگلوعربک اسکول او رپرانی دہلی کی جملہ تاریخ اپنے اندر سمیٹے ہوئے ساڑھے پانچ سو صفحات پر مشتمل ہے۔