امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے زور دے کر کہا ہے ‘یوکرین کے لیے سعودیہ کی 400 ملین ڈالر کی امداد ایک مثبت پیش رفت تھی مگر یہ اوپیک پلس میں تیل کی پیدوار کی کٹوتی کا ازالہ نہیں ہے۔امریکی وزیر خارجہ نے اقوام متحدہ میں روس کے خلاف سعودی عرب کے ووٹ کی بھی تعریف کی ہے البتہ سعودی عرب کے اوپیک فیصلے نے جو بائیڈن انتظامیہ کو غصہ دلایا ہے کیونکہ انتظامیہ وسط مدتی انتخاب سے پہلے امریکی صارفین کے لیے تیل کی قیمتوں میں اضافے پر پریشان ہے۔اس پس منظر میں صدر جو بائیڈن نے سعودیہ کو الزام دیا تھا کہ ‘اس نے روس کا ساتھ دیا اس کے مضمرات سعودیہ کو برداشت کرنا پڑیں گے۔دوسری جانب سعودی عرب نے واشنگٹن کی اس تنقید کو مسترد کر دیا تھا کہ ‘یہ امریکی موقف حقائق پر مبنی نہیں ہے۔‘ سعودی وزارت خارجہ کے مطابق اوپیک پلس کا فیصلہ خالصتاً اقتصادی فیصلہ تھا اس کی وجوہ سیاسی نہیں تھیں۔ ‘واضح رہے یہ تنازعہ اوپیک پلس میں کیے گئے اس فیصلہ کے تحت تیل کی عالمی منڈی میں تیل کی رسد اور طلب کے علاوہ قیمتوں کے پس منظر میں 20 لاکھ بیرل یومیہ تیل کم پیدا کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا ۔اس سے پہلے امریکی صدر جو بائیڈن اپنے دورہ سعودی عرب کے موقع پر یہ درخواست کر کے گئے تھے کہ سعودی ایسا فیصلہ کرنے کی مخالفت کرے ، جس سے اوپیک کی تیل کی پید اوار میں کمی ہو سکتی ہو۔صدر جو بائیڈن کی یہ درخواست ماہ نومبر میں متوقع وسط مدتی انتخابات کی وجہ سے تھی تیل کی پیداوار کم ہونے کا مطلب امریکی صارفین کے لیے تیل کی قیمت بڑھنا ہو گا جس کے سبب ڈیموکریٹس کوانتخابی مشکلات کا سامنا ہو گا۔امریکی وزیر خارجہ بلنکن نے بدھ کے روز ایک مرتبہ پھر اس معاملے پر امریکہ اور سعودی تعلقات پر بات کی ہے۔ انہوں نے امریکی موقف کا اعادہ کیا کہ ‘سعودی عرب نے اوپیک پلس کی سطح پر غلط فیصلہ کیا تھا۔ ‘بلنکن نے کہا ان کے پاس تجزیے میں ایسا کچھ نہیں تھا جو سعودیوں کو تجویز کرتے۔ ہم ان طریقوں کی طرف دیکھ رہے تھے جو ان کے لیے مسئلہ پیدا کرنے والے تھے۔ امریکہ کے سب سے اہم سفارتکار نے یہ بھی کہا امریکہ سعودی عرب کے ساتھ تعلقات تعلقات کو از سر نو دیکھ رہا ہے۔ان کے بقول اس سلسلے میں بہت سنجیدگی کے ساتھ غور کے انداز میں امریکی کانگریس کے ارکان بھی مشاورت کر رہے ہیں۔ کہ سعودیہ کے ساتھ ہمارے تعلقات ہمارے اپنے مفاد میں ہوں۔دوسری جانب امریکہ میں سعودی سفیر شہزادی ریما بنت بندر نے ‘سی این این کے ساتھ اپنے ایک حالیہ انٹرویو میں کہا ہے کہ ‘سعودی امریکہ تعلقات اور معاہدات کا جائزہ لیا جانا ایک مثبت چیز ہے۔ لیکن جہاں تک اوپیک میں کیے گئے فیصلے کا تعلق ہے وہ خالصتاً اقتصادی بنیادوں پر تھا سیاسی بنیادوں پر بالکل نہیں تھا۔