ڈاکٹرمظفرحسین غزالی
انسان ایسی مخلوق ہے جو جانوروں کی طرح ایک جیسی سیدھی سپاٹ زندگی نہیں گزار سکتا۔ جانوروں ،پرندوں اور کیڑوں کا بیشتر وقت کھانے کی تلاش ، پیٹ بھرنے اور بچا ہوا اپنی نسل کو آگے بڑھانے، لائف سائیکل کو پورا کرنے میں گزرتا ہے۔ وہ محبوب ترین غذا ملنے بھر سے خوش ہو جاتے ہیں۔ لیکن انسان کو زندگی میں ہر لمحہ تنوع کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس نے تھکن اور ذہنی تناو¿ کو دور کرنے کے کئی طریقے ڈھونڈ لئے ہیں۔ جن میں سیر و تفریح ، کھیل کود ، ناچ گانا ، ڈرامہ ، نوٹنکی ، سنیما، شعر و شاعری اور تہوار وغیرہ شامل ہیں۔
انسان ہمیشہ ایک جیسا نہیں رہتا۔ کبھی خوش ہوتا ہے تو کبھی رنجیدہ۔ کبھی محبت کرتا ہے تو کبھی نفرت۔ اپنوں یا اپنے جیسے لوگوں سے وہ لڑتا جھگڑتا ، مارتا مرتا ہے تو کبھی صلح امن و شانتی سے زندگی بسر کرتا ہے۔ اسے بدلاو¿ ، آگے بڑھنا اور نیا کچھ کرنا پسند ہے۔ شادی بیاہ کی تقریبات بھی اس کے لئے سکون کا باعث ہوتی ہیں۔ تو تہوار مل کر خوشی منانے کا ذریعہ۔ تہوار کسی مذہبی و سماجی واقع کی یاد ، نئی فصل کے آنے کی خوشی اور تاریخی شخصیات کی روایات جاری رکھنے کےلئے منائے جاتے ہیں۔ اس لئے ان کی شروعات پوجا یا عبادت سے ہوتی ہے۔
ہر خطہ و علاقہ کے لوگوں کا رہن سہن ، زبان ،تہذیب ، اقدار ، سماجی روایات ، مذہبی نظریات و عقائد الگ ہیں۔ سب کی آستھا کا مرکز بھی الگ ہے اس لئے الگ الگ مقامات پر الگ الگ تہوار منائے جاتے ہیں۔اس موقع پر انسان آپسی اختلافات مٹا کر دوسروں کے ساتھ خوشیاں بانٹتا ہے۔ تہواروں کی شروعات جس نے جب بھی کی ہو ان میں انسانی ، سماجی و معاشی پہلو شامل رہا ہے۔ تہوارو ں سے آپسی محبت ، میل ملاپ ، رواداری اور تعلقات میں اضافہ تو ہوتا ہی ہے سماجی بندھن بھی مضبوط ہوتے ہیں۔ فطری طور پر انسان کمزوروں ، مجبوروں اور بے سہارا لوگوں کی مدد کے لئے آگے بڑھتا ہے۔ تہواروں کے ساتھ ایسی روایتیں جڑی یا جوڑی گئی ہیں کہ انسان ان پر اپنی استعداد کے مطابق دولت خرچ کرتا ہے۔ اس طرح تہوار دولت کے سرکولیشن کا ذریعہ بنتے ہیں۔ جب دولت بازار میں آتی ہے تو اس کا سبھی طبقات کو فائدہ ملتا ہے۔ پرانے زمانے میں کئی کام گاروں کی زندگی انہیں تہواروں پر منحصر تھی۔ غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ تہوار ایسے وقت منائے جاتے ہیں جب لوگوں کے پاس خرچ کرنے کےلئے پیسے ہوتے ہیں۔ مثلا فصل کٹنے کے بعد یا موسم تبدیل ہونے کے وقت۔ تہواروں کے بہانے ایسی چیزیں گھروں میں آ جاتی ہیں جن کی موسم میں اور اس کے بعد ضرورت پڑتی ہے۔ مثلاً نئے برتن ، کپڑے ، سوکھے میوے ، پھل ، تل سے بنے سامان اور مٹھائیاں وغیرہ۔
بھارت تہذیبی و روایتی تہواروں کےلئے دنیا بھر میں مشہور ہے کہا جاتا ہے کہ یہاں ہر ماہ تہوار کا جشن منایا جا سکتا ہے۔ یہ ایک جمہوری ملک ہے یہاں گوناگوں مذاہب ، عقائد ، تہذیبوں اور ذاتوں کے لوگ بڑی تعداد میں ایک ساتھ رہتے ہیں۔ ہر مذہب و عقیدہ کے ماننے والوں کے اپنے تہذیبی و روایتی تہوار ہیں کچھ تہوار ایسے ہیں جنہیں سب مل کر مناتے ہیں۔ ہر تہوار کا جشن منفرد طریقہ سے اس سے منسلک لوگوں کے رسم و رواج اور تاریخی اہمیت کے لحاظ سے منایا جاتا ہے۔ بھارت کے جو لوگ غیر ممالک میں رہتے ہیں وہ بھی وہاں ان تہواروں کو پورے جوش وخروش کے ساتھ مناتے ہیں۔ یہ ایسا ملک ہے جو عدم مشابہت کے با وجود متحد ہونے کی مثال ہے۔ یہاں ہندو مسلم سکھ جین بدھ عیسائی پارسی اور یہودی وغیر ایک ساتھ رہتے ہیں۔ کچھ تہوار ملکی تو کچھ صوبائی سطح پر منائے جاتے ہیں۔ جمہوریت کا بھی اپنا جشن ہوتا ہے جس کا اہتمام سرکار کرتی ہے وہ روایتی تہواروں سے الگ ہے۔
ہمارے ملک کے بڑے تہواروں میں رکشا بندھن ، دسہرا، دیوالی ، ہولی ، رام نومی ، لوہڑی ، پونگل ، گرو پورنما ، اونم ، گنیش چترتھی ،درگا پوجا ، عید میلاد النبی ، شب برات ،عید الفطر ، عید الااضحی، محرم ،گرونانک جینتی، مہاویر جینتی، گڈ فرائی ڈے، کرسمس ، بدھ پورنما، وغیرہ اہم ہیں۔ الگ الگ تہواروں میں الگ الگ رنگ دیکھنے کو ملتے ہیں۔ دسہرے کے بعد دیوالی روشنی کا تہوار ہے۔ دسہرا برائی پر اچھائی کی جیت کی خوشی میں منایا جاتا ہے اسی طرح عربی سال کے پہلے مہینہ محرم کی دسویں تاریخ کے ساتھ بھی کئی یادیں جڑی ہیں۔حضرت حسینؑ کی شہادت ان میں سے ایک ہے۔حضرت حسین نے اسلامی حکومت ” خلافت “ (دانشوروں کے ذریعہ چنی ہوئی سرکار)کو شہنشایت میں بدلنے یعنی باپ کے بعد بیٹے کو خلیفہ (حکومت کا سربراہ) بنائے جانے کے خلاف آواز اٹھائی تھی۔ اس احتجاج کی وجہ سے ان کو اور ان کے خاندان کے تمام مردوں کو بچوں سمیت قتل کر دیا گیا تھا۔ سوائے زین العابدین کے جو اس وقت شدید بیمار تھے۔ حق کی آواز اٹھانے کے لئے انہیں ہر سال یاد کیا جاتا ہے اور یاد کیا جاتا رہے گا۔ اسی طرح آدرش وادی رام کو راون یعنی برائی ، گھمنڈ ، ظلم زیادتی اور انسانیت کے دشمن کا خاتمہ کر نے کے لئے یاد کیا جاتا ہے دسہرے میں ہر سال علامتی کرداروں کے ذریعہ اس واقع کو دہرایا جاتا ہے۔راون کا دہن ( سپرد آگ ) کیا جاتا ہے۔ بچے اور بڑے سب برائی پر اچھائی کی جیت پر خوشی مناتے ہیں۔ لیکن اپنے اندر کے راون اور یزید ( کنبہ پروری ) کو مارنے یا خاتمہ کرنے کو کوئی تیار نہیں ہے۔
آدرش وادی رام کی واپسی پر ایودھیا کے لوگوں نے اماوس کی کالی رات کو چراغاں کرکے روشن کردیا تھا ان کے آنے کی خوشی میں گھروں کو سجایا گیا۔ لوگ ایک دوسرے کے گلے ملے ، مٹھائیاں کھائی کھلائی گئیں ، تحفے بانٹے گئے یہ روایت آج بھی جاری ہے اور جاری رہے گی۔ میں نے اپنے بچپن میں دیکھا ہے کہ دیوالی میں مٹی کے دیئے سرسوں یا تل کے تیل سے رنگ برنگی کنڈیلوں میں جلائے جاتے تھے۔ مٹی کی مورتیاں و کھلونے بنتے تھے۔ دیوالی کے موقع پر ان کی خوب خریداری ہوتی تھی مٹی کے دیوں میں سرسوں یا تل کے تیل کے جلنے سے ماحول صاف ہوتا تھا۔ گلابی موسم میں جن کیڑوں یا جراثیم میں جان آجاتی تھی وہ تیل کے جلنے سے ختم ہو جاتے تھے۔ دوسری طرف مٹی کا کام کرنے والے کمہاروں کو روزگار ملتا تھا۔ اب دیوں کی جگہ موم بتی نے لے لی ہے بڑے شہروں میں چین سے لائی گئی جھالر کا استعمال ہوتا ہے۔ موم بتی ماحو ل کو آلودہ کرتی ہے بجلی سے جلنے والی جھالر کیٹ پتنگوں کو اپنی طرف متوجہ کرتی ہے۔ پھر دیوالی پر جس کاروبار کا اپنے ملک کے لوگوں کو فائدہ ملتا تھا وہ غیر ممالک کو جا رہا ہے۔ جبکہ اپنے ملک کے لوگ محرومی ، غریبی و بے روزگاری کی مار جھیل رہے ہیں۔
دیوالی سے ایک دن قبل ملک کے کچھ حصوں میں کالی کی پوجا کی جاتی ہے۔ ایسا مانا جاتا ہے کہ اس دن کالی نے مہسا یا بھینسا سر کو مارا تھا۔ اس نے دنیا کے نظام کو درہم برہم کرنے کی کوشش کی تھی۔ وہ قدرت کو چیلنج کر خود خدا بننا چاہتا تھا۔دسہرے سے پہلے درگا کی پوجا ہوتی ہے۔ درگا کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ دنیا میں ظالموں کا خاتمہ کرنے کے لئے آئی تھی۔ سچائی یہ ہے کہ جب بھی انسان نے قدرت کو چیلنج کر دنیا میں ظلم وزیادتی ، نفرت ، پاپ اور فطرت کے خلاف کچھ کرنے کی کوشش کی اور توحید کا انکار کیا تب قدرت نے اپنی موجودگی کا احساس کرایا۔ ظالموں کو ان کے کئے کی سزا ملی۔ دیوالی کے دیوں سے بھی یہ پیغام ملتا ہے کہ اندھیرا کتنا ہی گھنا کیوں نہ ہو وہ اجالے کا مقابلہ نہیں کرسکتا۔ ایک چھوٹا سا دیا جلتے ہی اندھیرا دور بھاگ جاتا ہے یعنی برائی کتنی ہی بڑی کیوں نہ ہو وہ اچھائی کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔ ان تہوارو ں کے ذریعہ یہ سبق یاد دلانے کی کوشش کی گئی ہے تاکہ انسان حالات سے گھبرا کر مایوس نہ ہو۔ دیوالی میں روشنی علامت ہے اچھائی کی، ایسی امید کی جاتی ہے کہ جو روشنی کو پسند کرتا ہے وہ کسی کی زندگی میں اندھیرا نہیں کر سکتا۔ دیوالی کے دیوں سے دنیا کو روشن کرنے کے ساتھ تن من کو بھی روشن کیا جائے تاکہ یہ روشنی پورے ملک کو خوشیوں سے بھردے۔