قومی یوم تعلیم کے موقع پرچوہانکے نے بھارت کے سابق وزیر تعلیم مولانا آزاد کےخلاف اسلامو فوبک تبصرہ کرتے ہوئے وزیر اعظم کوبھی ٹیگ کیا
عامر سلیم خان
نئی دہلی:سدرشن ٹی وی کے بدنام زمانہ ’یوپی ایس سی جہاد‘ کے تبصرہ والے سریش چوہانکے اپنے الیکٹرانک میڈیا چینل سدرشن ٹی وی پر وقفے وقفے سے نفرت اور اسلامو فوبیا کو بڑھاوا دےتے رہے ہیں۔اس بار انہوں نے مولانا ابوالکلام آزادکو نشانہ بنایا ہے۔ مولانا آزاد جو مشہور آزادی پسند اور آزاد بھارت کے پہلے وزیر تعلیم رہے اورجنہیں بائیں بازو کی طرف جھکاو¿ رکھنے والے ایک سیکولر مسلمان کے طور پر بھی جانا جاتا تھا۔ 2008 سے ہر سال 11 نومبر کو،بھارت میں ان کی یوم پیدائش کو’ قومی یوم تعلیم‘ کے طور پر منایا جاتا ہے۔جونہی مرکزی وزیر نتن گڈکری نے ابوالکلام کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے ایک ٹویٹر پوسٹ کیاچوہانکے نے نفرت انگیز تبصروں کے ساتھ اسے دوبارہ شیئر کردیا۔ چوہانکے نے لکھا”جب کوئی بھارت کا نہیں ہے تو بھارت رتن یا بھارت کا وزیر تعلیم کیسے بن سکتا ہے؟“ جو ہندوستان کا نہیں تھا، اسے ”بھارت رتن“ یا ”ہندوستان کا وزیر تعلیم“ کیسے بنایا گیا؟“
"جو ملک انگریزوں اور جہادیوں کی مشترکہ سازش کا شکار ہوا وہ شکاریوں کے نام پر قومی یوم تعلیم کو کیسے قبول کر سکتا ہے اور مناسکتا ہے؟”اس کے بعد چوہانکے نے وزیر اعظم نریندر مودی، وزیر تعلیم دھرمیندر پردھان اور راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کو ٹیگ کیا اورکہا کہ ”پچھلی حکومت کے فیصلے کو تبدیل کرنے پر غور کریں“۔اگرچہ یہ پہلا موقع نہیں جب سریش چوہانکے نے فرقہ وارانہ تفریق کو ہوا دینے کے ارادے سے نفرت انگیز تبصرہ کیا ہے، مگر اس بار چوہانکے نے 11 نومبر کی اس پوسٹ کے ساتھ، بھارت کی جدوجہد آزادی کی ایک عظیم شخصیت پر حملہ کرکے تمام حدیں پار کر دی ہیں۔ مولانا آزاد نے اس بات پر بھی زور دیا تھا کہ پرائمری تعلیم ہر شہری کا بنیادی حق ہے، جس کے بغیر وہ ایک شہری کی حیثیت سے اپنے فرائض پوری طرح ادا نہیں کر سکتے، لیکن آج چوہانکے جیسے خمیر کے لوگ ان پر بھی حملہ کرنے لگے ہیں۔
چوہانکے نے فرقہ وارانہ الزامات اور تضحیک آمیز تبصروں کے ذریعے مولانا آزاد کی وراثت پر سوال اٹھایا اور پورے معاملے کو پولرائز کیاہے۔ اس پوسٹ کو اپنے ذریعے کیے گئے تبصروں کے ساتھ دوبارہ شیئر کرتے ہوئے، چوہانکے جان بوجھ کر ایسے بیانات دے رہے ہیں جو فرقہ وارانہ، تفرقہ انگیز اور اشتعال انگیز ہیں اور نفرت انگیز تقریر کے مترادف ہیں۔یہ پہلا موقع نہیں ہے جب سریش چوہانکے نے اپنے اسلامو فوبک اور تضحیک آمیز تبصروں کےلئے شہرت بٹورنے کی کوشش کی ہے۔ کم از کم تین معاملات میں، عدالتوں نے چوہانکے کےخلاف درج مقدمات میں ایکشن ٹیکن رپورٹس (اے ٹی آر) مانگی ہیں، جو اپنے ٹی وی چینل’سدرشن نیوز‘اور عوامی فورمز کے ذریعے اقلیتوں کےخلاف زہر اگلنے کے لیے بدنام ہیں۔15 ستمبر 2020 کو چوہانکے کے اشتعال انگیز ٹیلی ویژن شو ’یوپی ایس سی جہاد‘نے سپریم کورٹ آف انڈیا کی توجہ مبذول کرائی۔
اس سال اپریل میں سپریم کورٹ نے دہلی پولیس سے کہا کہ وہ ایک حلف نامہ داخل کرے جس میں چوہانکے کو کسی بھی غلط تبصرے سے بچنے کےلئے کہا گیا تھا۔ دہلی میں ہندو یووا واہنی کی جانب سے منعقد ایک تقریب میں ”مسلمانوں کو مارنے“ کے لئے گئے مذکورہ حلف کی ویڈیو خود چوہانکے نے ٹوئٹر پر پوسٹ کی تھی۔چوہانکے نے فلم اداکار شاہ رخ خان کو بھی ان کی مسلم شناخت پر نشانہ بنایا۔ چوہانکے نے یہ بھی الزام لگایا تھا کہ سپر اسٹار نے فروری 2022 میں لتا منگیشکر کی آخری رسومات میں ان کی باقیات پر تھوک دیا۔
سٹیزن فار جسٹس اینڈ پیس نے سریش چوہانکے کےخلاف بار بار اقدامات کئے ہیں، اور ان کی نفرت انگیز تقریر کو خبر کے طور پر پیش کرنے پر تنقید کی ہے۔ستمبر 2020 میں سی جے پی نے نیوز براڈکاسٹنگ اسٹینڈرڈز اتھارٹی جسے اب نیوز براڈکاسٹنگ اینڈ ڈیجیٹل اسٹینڈرڈز اتھارٹی کے نام سے جانا جاتا ہے سے سدرشن نیوز کےخلاف شو میںدراندازی کیلئے تنازع تلاش کےلئے پوچھا۔ستمبر 2022 میں سی جے پی نے ہریانہ کے بدر پور میں 4 ستمبر کو منعقدہ ایک ریلی میں توہین آمیز، اسلامو فوبک اور نفرت انگیز تقریرکرنے پر سریش چوہانکے کے خلاف قومی اقلیتی کمیشن (این سی ایم) میں درخواست دائر کی تھی۔ معاملہ کاافسوس ناک پہلو یہ ہے کہ سریش چوہانکے بار بار اسلام اور مسلمانوں کیخلاف اشتعال انگیزی اور زہر اگلتے رہے ہیں لیکن وہ آزادی سے گھوم رہے ہیں، کہا جاتا ہے کہ انہیں ریاستی سرپرستی حاصل ہے۔