مولانا انصار رضا
9716812786
ہندوستانی سیاست میں خوف پیدا کرنے اور دہشت زدہ ماحول سے فائدہ اٹھانے کی روایت بہت پرانی ہے۔آزادی کے بعد کانگریس نے اس کا آغاز کیا۔کانگریس نے پہلے آرایس ایس کو خوب مضبوط کیا ،ملک میں فسادات ہونے دیئے گئے،اس کا الزام آرایس ایس یعنی راشٹریہ سویم سیوک سنگھ پر لگایا گےامگر کبھی کسی مجرم کے خلاف کاروائی نہ کرکے فسادیوں اور دنگائیوں کی خوب حوصلہ افزائی کی ۔ملک کے ایک طبقے کو مستقل سنگھ کے زیر عتاب رکھا گےااور باقی ملک میں ایک چھوٹی سی تنظیم کے لوگوں کا ایسا خوف مسلط کیا گےا کہ بعض طبقوںپر اس کا نام سنتے ہی دہشت سوار ہونے لگتی تھی۔یہ فارمولہ صرف مسلمانوں تک ہی محدود نہیں رکھا گےا بلکہ دلتوں،پسماندہ طبقوں،درج فہرست ذاتوں اور نظر انداز کی گئی اقوام و قبائل پر بھی آزمایا گےا۔اس کا بھرپور فائدہ کانگریس کو ملا اور وہ آرام سے ملک پر من چاہے فیصلے تھوپتی رہی۔اب اس اسی راہ پر بھارتیہ جنتا پارٹی گامزن ہے۔
وزیر اعظم نریندر مودی کی دھارمک ریلیاںملک میں ایک ایسی فضا بنارہی ہیں جس کے اثرات جلدی ختم نہیں ہوسکیں گے۔اگلے سال ملک کی درجن بھر ریاستوں میں اسمبلی انتخابات ہونے والے ہیں اور اس کے بعد عام چناؤ ۔ان سب میں مودی جی کی دھارمک ریلیوں کا فائدہ بھارتیہ جنتا پارٹی کو مل کر رہے گا۔نئی نسل مودی کو اپنا ہیرو مان رہی ہے ۔اسے مہنگائی ،بے روزگاری ،روپئے کی گرتی قدر، بھارت پر چین کا تسلط ،دنیا میں بھارت کی گرتی ساکھ ،سرکار کی ہر مورچے پر ناکامی سمیت مرکزی حکومت کے غلط فیصلے وغےرہ نئی نسل کوکچھ نظر نہیں آرہے ہیں ۔وہ آنکھ بند کرکے مودی مودی چلارہی ہے اور مانتی ہے کہ ملک کی جو حالت ہے وہ عارضی ہے مودی جی جادو کی چھڑی گھمائیں گے اور پلک جھپکتے ہی سب کچھ ٹھیک ہوجائے گا۔آریس ایس نے مودی کو بھگوان بنانے کی جو چال چلی تھی وہ کامیاب ہورہی ہے ۔اس صورتحال کا مقابلہ کرنے کےلئے فی الحال بھارت میں کوئی سیاسی جماعت نہیں ہے۔
کانگریس کی بھارت جوڑو یاتر اکا اثر جنوبی ہند کی گلی گلی میں دکھائی دے رہا ہے ۔کانگریسی لوگوں کے مطابق راہل گاندھی اور ان کی ٹےم کو ہر جگہ بھرپور حمایت مل رہی ہے ۔کھڑگے کو کانگریس کا قومی صدر بنایا جانا بھی جنوبی ہند والوں کوکانگریس کے قریب لارہا ہے ۔بعض سیاسی تجزیہ کار یہ بھی کہتے ہیں کہ جنوبی ہند میں بھارتیہ جنتا پارٹی کی آقا آرایس ایس نے جو زہریلی فصل بوئی تھی اس کی جڑیں بھارت جوڑو یاترا نے اکھاڑ کر پھینک دی ہیں۔لیکن اس کے ساتھ ساتھ بعض لوگوں کا یہ بھی خیال ہے کہ راہل گاندھی کی ےاترا جیسے ہی ختم ہوگی ،جنوبی ہند میں مودی کی ریلیوں کا سیلاب آئے گا اور راہل کی ساری حمایت اس سیلاب کی نذر ہوجائے گی۔لگاتار ریلیوں اور بڑے بڑے ترقیاتی پروجیکٹوں کی تنصیب کے خوش کن اعلانات سے راہل گاندھی کی محنت پر پانی پھر جائے گا اور کانگریس کی بنی بنائی فضا اس کے خلاف ہو جائے گی کچھ یہ بھی کہتے ہیں کہ عام انتخابات کے آتے آتے کانگریس محدود حلقوں تک سمٹ کر رہ جائے گی اور جنوبی ہند کی فضا زعفران زار ہوجائے گی۔
موجودہ وقت میں بھارتیہ جنتا پارٹی ایک ایسی سیاسی قوت نظر آتی ہے جسے تسخیر کرنا گویا ممکن ہی نہ ہو۔حالانکہ زمینی سچائیاں اس کے ایک دم خلاف ہیں۔میڈیا کی خبروں اور رپورٹوں سے قطع نظر اگر حقائق پر نظر ڈالیں توبھارتیہ جنتا پارٹی کے پاؤں سے اب زمین کھسکنے لگی ہے۔اعلیٰ ذات کے ہندؤں کا ایک بڑا طبقہ اس سے بدظن ہونے لگا ہے اور اب انہیں محسوس ہونے لگا ہے کہ جو امیدیں وہ بھارتیہ جنتا پارٹی سے لگائے بیٹھے تھے ان کا پورا ہونا ماممکن کی حد تک مشکل ہے ۔ آہستہ آہستہ چھوٹی ذات برادریاں،پسماندہ اقوام و قبائل میں بھی وہ جوش نظر نہیں آرہا ہے جس جوش کے ساتھ وہ بھاجپا کے اجلاس میںدکھائی دیا کرتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ جس مسلم سماج کا خوف دکھا کر ،انہیں گالیاں دے کر ،ان کے خلاف زہریلی بیان بازی کرکے بھاجپا اقتدار میں آئی تھی اور کھلے عام کہتی پھرتی تھی کہ ہمیں کسی مسلم کا ووٹ نہیں چائےے ،اب اسی مسلم کو گود لینے کی جگت میں ایڑی چوٹی کا زور لگارہی ہے۔
بھاجپا کی آقاآرایس ایس کو اچھی طرح معلوم ہے کہ بھارت میں پسماندہ طبقات کی آبادی زیادہ ہے۔ہندو اور مسلمانوں میں نظر انداز کئے گئے طبقوں،دلتوں ،درج فہرست ذاتوں کی ایک بڑی تعداد ہے۔ یہی وہ طاقت ہے جو کسی بھی سیاسی جماعت کو میدان عمل کھڑا رکھنے کے لئے لازمی و ضروری ہے ۔کانگریس پسماندہ طبقوں اور مسلمانوں کے بھروسے پر ستر سال ملک پر راج کرتی رہی اس کے بعد جتنی بھی پارٹیاں معرض وجود میں آئیں انہوں نے پچھڑی ذاتوں اور مسلمانوں کے دم پر ہی اپنی سیاسی طاقت کا مظاہرہ کیا۔بھارتیہ جنتا پارٹی نے دلتوں ،پسماندہ طبقوںاور اعلیٰ ذات کے ہندؤں کا ایک Combinationبنایاتھا جو کہ بہت کامیاب رہا ۔لیکن اب یہ Combination بکھرنے لگا ہے لہٰذا اب اس نے اعلیٰ ذات کے ہندوؤں اور پسماندہ مسلمانوں کو یکجا کرکے ایک نیاCombination بنانے کی طرف توجہ کی ہے اور ملک کے عوام پر خوف و دہشت طاری کرکے اقتدار پر مضبوط گرفت بنانے کا منصوبہ وضع کیا ہے ۔ایک دور میں یہی کام کانگریس بھی کیا کرتی تھی مسلمانوں کو آرایس ایس سے ڈراتی تھی۔ہر وقت ملک کے سیکولرزم کو خطرے میں دکھا کر،گنگا جمنی تہذیب کے مٹنے کا خوف اور باہمی اتحاد و یگانگت کی دہائی دے کر اپنی سیاسی طاقت مضبوط کرتی تھی ۔ملک میں جب کہیں کوئی فساد ہوتا تھا تو اس کا الزام آرایس ایس کے سر لگاےا جاتا تھا لیکن کبھی کسی مجرم کو نہ تو سزا دی گئی اور نہ آرایس ایس کو فسادی جماعت قراردیا گےا۔کانگریس نے ہمیشہ دونوں ہاتھوں میں لڈ رورکھے بالفاظ دیگر ’باغباں بھی خوش رہے راضی رہے صیاد بھی ‘ کے فارمولے پر عمل کیا۔لیکن بابری مسجد کا تالا کھولے جانے کے بعد مسلمانوں نے کانگریس سے کنارہ کشی شروع کردی اور علاقائی جماعتوں کے ساتھ کھڑے ہوگئے۔اترپردیش میں جب سے کانگریس کو مسلمانوں نے ٹھکرایا تب سے کسی بھی علاقے میں اس کا چراغ نہیں جل سکا۔اس ماحول کا بھرپور فائدہ بھارتیہ جنتا پارٹی نے اٹھایا۔مسلمانوں کی کانگریس سے علاحدگی،اس کے بعد مختلف جماعتوں کے ساتھ جڑاؤ پھر بکھراؤ اور دلتوں و پسماندہ طبقوں کے اتحاد نے اس کے خوابوں کو شرمندہ¿ تعبیر کردیا اور آخر کار رام مندر بنانے کے خوش کن اعلان ،اعلیٰ ذات ہندوؤں کے بے دریغ پیسہ خرچ کرنے کے طفیل بھارتیہ جنتا پارٹی ملک میں ایک مضبوط سیاسی طاقت بن گئی اور کانگریس کو ایسی حالت میں مبتلا کردیا کہ وہ جو بھی داؤ پیچ آزماتی وہ سارے کے سارے الٹے پڑنے لگتے ہیں۔کبھی کبھی تو وہ اپنے داؤ سے خود ہی چاروں شانے چت بھی ہو جاتی ۔ بھارتیہ جنتا پارٹی نے ملک میں ایسا مذہبی ماحول تےار کردیا ہے کہ سیکولر زم کا نام لینا دیش سے غداری سمجھا جانے لگا ہے۔اسی کے ساتھ ساتھ علاقائی پارٹیاں بھی اب یہ ثابت کرنے کی کوشش کررہی ہیں کہ اصل ہندو بھاجپائی نہیں ،بلکہ ہم ہیں ۔جو لیڈران کسی دور میں خود کو مندر میں نہ جانے کا فخریہ اعلان کیا کرتے تھے ،اب مندر میں جانے والوں کی قطارمیں سب سے آگے نظر آنے کی کوشش کرنے لگے ہیں۔
دس سال تک بھارتیہ جنتا پارٹی،اگڑوں ،پچھڑوںاور اعلیٰ ذات ہندوؤں کے دم پر راج کرنے کے بعد اب محسوس کررہی ہے کہ ملک کے لوگوں کو تادیر بے وقوف بنانا مشکل ہے لہٰذا اس نے پسماندہ ہندوؤں اور پسماندہ مسلمانوں کو ایک پلیٹ فارم پر لانے کا منصوبہ بنایا ہے ۔اس کی ذمہ داری قومی اقلیتی کمیشن کے وائس چیئرمین عاطف رشید کو سونپی گئی ہے ۔انہوں نے پسماندہ مسلمانوں کی کئی تنظیموں کو اپنے ساتھ ملانے کی کاروائی شروع بھی کردی ہے اورہوسکتا ہے باقیوں کو مسلم راشٹریہ منچ کے لوگوں کے ذریعے پیغام بھیج دیا ہو کہ اگر وہ اس طرف نہیں آئیں گے تو جو ان کے ساتھ ہوگا ، اس کے ذمہ دار وہ خود ہوں گے۔بھارتیہ جنتا پارٹی کی داخلی کمزوری مسلمانوں کی شمولیت سے دور ہوگی یا نہیں یہ تو وقت بتائے گا لیکن اتنا ضرور کہا جاسکتا ہے کہ بھاجپا نے کانگریس کی راہ پر چلنا شروع کردیا ہے مگر کب تک چلے گی یہ کہنا ابھی مشکل ہے۔