سید مجاہد حسین
ایک نوجوان جس کے سر پر قتل کا جنون سوار تھا ، اپنی گرل فرینڈ کو موت کی نیند سلانے کیلئےپے درپے وار کئےجارہا تھا ،اس کے ہاتھ میں ایک تیز دھار دار ہتھیار تھا۔ جب وہ حملے کرتے کرتے تھک گیا تو اس نے ایک بڑاپتھراٹھایا اور لڑکی کے سر پر اس سے کئی بارحملےکئے۔وہ نوجوان پتھر سے اس لڑکی کے سر کو اس وقت تک کچلتا رہا جب تک اس کی جان نہیں نکل گئی ۔اس کے بعد وہ نو جوان چیختا چلاتا وہاں سے فرار ہو گیادلچسپ بات یہ ہے کہ چشم دیداس وحشت ناک قتل کا منظر کھڑے دیکھتے رہے اور کوئی بھی اس کو جرم کرنے سے نہیں روک پایا۔جی ہاں ، ہم اس دردناک قتل کی بات کررہے ہیں جس کا ویڈیو سوشل میڈیا پر لوگوں کی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے ۔یہ ویڈیو ایک نابالغ لڑکی کے قتل کا ہے جس نے دہلی کے لوگوں پر جھرجھری طاری کر دی ہے ۔واقعہ دہلی کے روہنی ،شاہ باد ڈیری علاقے کا ہے جہاں دسویں کی ایک لڑکی کا دن دہاڑے قتل کردیا جاتا ہے ،اس کی عمر 16تھی ،حیرانی کی بات ہے کہ وہ نوجوان سر عام قتل کر کے فرار ہوجاتا ہے اس کے چہرے پرکسی طرح کا کوئی خوف نہیں ظاہر تھا،ناہی کوئی پچھتاوا،لیکن لوگ تماشائی بنے اس واقعہ کو نہ صرف دیکھتے رہتے ہیں بلکہ اس کو نظر انداز کر کے گزر جاتے ہیں!۔ جائے واقعہ پرکسی میں اتنی جرائت نہیں تھی کہ وہ ہمت کر کے اس نوجوان کو روک دیتا جس پر اپنی گرل فرینڈ کو جان سے مار دینے کا جنون سوار تھا۔ پولس نے اس شخص کو گرفتار تو کر لیاہے لیکن ابھی کئی رازوں سے پردہ اٹھنا باقی ہے ۔ ملزم پر 302 دفعہ کے تحت مقدمہ درج کرلیا گیاہے ۔اس وحشت ناک قتل کے واقعہ نے دہلی کے لوگوں میں سراسیمگی پیدا کردی ہے تو وہیں قومی دارالحکومت میں لڑکیوں کے تحفظ پر بھی سوالیہ نشان لگا دیاہے ۔لوگوں کا کہنا ہے کہ آج تک قومی دارا لحکومت دہلی میں جس طرح سے خواتین اور لڑکیوں کے تحفظ کا ڈنکا پیٹا جاتا رہااور بلند و بانگ دعوے کیئے جاتے رہے ،اس قتل نے ان سب کی قلعی کھول کر رکھ دی ہے ۔واقعہ نےپولس کے ان تمام دعوئوں کی پول کھول دی ہے جس میں وہ دہلی کے عوام بالخصوص لڑکیوں کو تحفظ فراہم کرنے کا دعویٰ کرتی رہی ہے ۔سب سے پہلا اوربڑا سوال یہ کھڑا ہورہاہے کہ ایک مہذب سماج میں نوجوان لڑکے کس ڈگر پر چل رہے ہیں اور ان کے والدین ان کو کس طرح کی تربیت دے رہے ہیں ؟ہم خود کو ایک مہذب سماج کا شہری ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں لیکن اس صفت سے عاری رہتےہیں۔حیرانی کی بات ہے کہ ایک بے یارو مددگار لڑکی کو بچانے کے لئے کوئی آگے نہیں آتا ،راہگیر ایک بے بس لڑکی پر وحشیانہ حملے ہوتے ہوئے دیکھتے ہیں ،لیکن کسی میں ملزم کو روکنے کی ہمت نہیں ہوتی!،راہگیر دیکھتے اور گزرتے گئے ،لیکن ان کے ضمیر نے ان کو نہیں جھنجوڑا!۔آخر اسے ہمت و جوان مردی کے کس زمرے میں رکھا جانا چاہئے
جبکہ ہم ایک مہذب سماج ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں اور یہ کہتے کہتے ہمارا گلا خشک ہوجاتا ہے۔آخر ہم کس صدی میں جی رہے ہیں ، ایک شہری ہونے کے ناطے ہماارا کیا فرض ہونا چاہئے ،شاید ہم یہ بھول گئے ہیں۔ یقینااس وقت اکثر لوگ یہ بات بھول گئے کہ آج کسی کی بیٹی ایک جنونی بھیڑئے اور ایک درندے کاشکار ہو رہی ہے تو کل اس کی بیٹی کے ساتھ بھی ایسا کچھ ہو سکتا ہے !۔اگر کیمرے میں یہ واقعہ قید نہ ہوجاتا تو شاید پولس کو اس قاتل کو پکڑنے میں نہ جانے کتنے دن لگ جاتے!۔ایک دن بعد پولس نے ملزم کو پکڑ کر داد تحسین تو حاصل کر لی، لیکن اسے اپنے فرض کی ادائیگی کی طرف بھی نظر ثانی کرنے کی ضرورت ہے ۔یہ واقعہ ملک کی قومی دارالحکومت کا ہے جہاں ایک دن پہلے ہی ایک شاندار اور قیمتی اثاثے سے ایک نادرقانون کے مندر پارلیمنٹ کا پوری شان و شوکت سے افتتاح کیا گیا تھا اور اس سے ایک دن پہلے ہی نیتی آیوگ کی گورننگ کائونسل کی عالی شان میٹنگ ہوئی تھی ۔دونوں پروگراموں کی سربراہی وزیر اعظم مودی نے کی تھی ۔اس میٹنگ میں ’وکست بھارت 2047‘ یعنی ’ڈیولپڈ انڈیا‘ سمیت اوربہت سے ایشوز پر بات ہوئی تھی۔اس میٹنگ میں نہ صرف بھارت کو اگلے 25 سالوں میں ایک ترقی یافتہ ریا ست بنانے کا عہد کیا گیا تھا بلکہ ’امرت کال ‘ کی جانب بڑھنےکے عزم کو دہرایا گیا تھا۔لیکن افسوس کہ اسی دارلحکومت میں آج اس بدتر قانون و انتظام کی ایک وہ تصویر بھی دیکھی گئی ،جس نے لوگوں کو جھنجوڑ کر رکھ دیا اور ان میں خوف بھر دیاہے۔یہ دردناک واقعہ ہمارے’مہذب سماج ‘اور ’’خواتین کے تحفظ ‘‘کے ڈھکوسلے بازی پر زوردار طمانچہ ہے بلکہ کئی چبھتے سوال اپنے پیچھے چھوڑ گیا ہے۔اس واقعے نے گھنائونے جرم کی جو تصویر پیش کی ہے، اس بڑھتے رجحان کے پیچھے کی وجوہات اجاگر کرنے کی ضرورت ہے۔