دار القضاء کا وجود اس سر زمین پر اللہ کی رحمت اور اسلامی نظام عدل کی بین علامت ہے۔ ایک مسلمان ہونے کی حیثیت سے ہم سب کا فریضہ ہے کہ ہم اللہ اور اس کے رسول کی اتباع کریں اور اگر ہمارے درمیان کوئی نزاع ہو جائے تو اس کو اللہ اور رسول کے احکام کے ذریعہ حل کرائیں، لہٰذا اللہ اور اس کے رسول کی اتباع کاایک اہم حصہ دار القضاء ہے، دار القضاء ایسی جگہ ہے، جہاں کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ کے مطابق معاملات کا حل کیا جاتا ہے۔ اس لیے ہم سب کو چاہئے کہ اپنے عائلی معاملات دار القضاء کے ذریعہ حل کرائیں۔ یہ باتیں امیر شریعت بہار، اڈیشہ وجھارکھنڈ حضرت مولانا احمد ولی فیصل رحمانی صاحب مد ظلہ العالی نے 30مئی 2023 روز منگل کو مدرسہ سلیمانیہ سنہولہ ہاٹ، ضلع بھاگل پور میں دار القضاء امارت شرعیہ کے قیام کے موقع پر منعقد اجلاس عام سے خطاب کرتے ہوئے کہیں۔
انہوں نے کہا نوجوان نسل کے اندر الحاد کے بڑھتے ہوئے رجحان پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ الحاد سے بچنے کے لیے اللہ پر یقین ضروری ہے، اس کے لیے قرآن کریم کو سمجھ کر پڑھنے کی ضرورت ہے۔ آپ نے تمام لوگوں کو دعوت دی کہ قرآن سمجھ کر پڑھیں اوراپنے اندر قرآن فہمی کا ذوق پیدا کریں۔آپ نے دارا لقضاء کے قیام کی اہمیت و ضرورت پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا ہ ۴/ کروڑ کیس ہندوستان کی عدالتوں میں پینڈنگ میں ہیں،جن میں روزانہ دو ہزار کیس کا اضافہ ہوتا ہے، بعض بعض ایسے معاملات سامنے آئے جہاں 24سال کے بعد طلاق کا معاملہ حل ہوا۔انصاف کا دیر سے ملنا بھی بے انصافی ہے، اس لیے جلد اور آسانی کے ساتھ انصاف کے حصول کے لیے دار القضاء کا قیام ضروری ہے، دار القضاء اور دنیوی کورٹ میں فرق ہے، وہاں دولت اور وقت کا خرچ ہے جو دارا لقضاء میں نہیں ہے، دارا لقضاء میں فیصلہ اللہ اور رسول کے حکم کے مطابق ہوتا ہے، اس لیے اس میں رحمت اور برکت ہے۔یہ صرف طلاق اور نکاح کے فیصلہ کے لیے نہیں ہے، بلکہ آپ کے ہر قسم کے شرعی اور سماجی مسائل کے حل کا مرکز ہے۔آپ نے نومنتخب قاضی کو نصیحت کرتے ہوئے کہا کہ امین و صادق بن کر کام کریں گے تو اللہ تعالیٰ کی نصرت پیدا ہوگی۔
مولانا قاضی محمد انظار عالم قاسمی قاضی شریعت امارت شرعیہ نے اپنی تقریر میں کہا کہ اللہ تعالیٰ پر ایمان لانے کے بعد حق کے ساتھ فیصلہ کرنا جملہ فرائض میں سے اہم اور ساری عبادتوں سے اشرف عبادت ہے، انبیاء اور رسولوں کی بعثت اسی لئے ہوئی اور خلفائے راشدین ہمیشہ اس کے ساتھ مشغول رہے۔ انصاف کا قیام نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ تمام انبیاء کی عظیم سنت ہے، انصاف کو عام کرنے کا حکم تمام انبیاء کو دیا گیا، اسی لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی حیات میں تمام علاقوں میں قاضی مقرر کیے تاکہ انصاف عام ہو اور انسانیت کو روحانی سکون میسر ہو۔اس لیے امارت شرعیہ کا بھی جب 1921 میں قیام عمل میں آیاتو سب سے پہلے دارالقضاء قائم کیا گیا کیوں کہ نظام امارت شرعیہ کی بنیاد ہی حق وعدل پر رکھی گئی ہے، امارت شرعیہ کا شعبہئ دار القضاء یہاں کے پورے نظام میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے، کیوں کہ اس سے مظلوموں کو انصاف اور حق دار کو ان کا حق ملتا ہے اور ایک صالح اور پر امن معاشرہ کا وجود عمل میں آتا ہے۔ ایک مسلمان ہونے کی حیثیت سے ہمارا یہ فرض ہے کہ ہم اپنی زندگی اسلامی تعلیمات کے سانچے میں ڈھالیں،اور اپنے معاملات بالخصوص نکاح، طلاق، خلع، وراثت و دیگر خاندانی و معاشرتی مسائل کا تصفیہ شریعت اسلامی کے مطابق کرائیں۔
مولانا مفتی سہیل اختر قاسمی نائب قاضی شریعت مرکزی دار القضاء نے امارت شرعیہ کی تاریخ پر روشنی ڈالی، امراء شریعت کی خدمات کو بیان کیا اور ان کی قربانیوں کو یاد دلایا، انہوں نے مختلف میدانوں میں امارت شرعیہ کے اکابر کی محنتوں کا تفصیل سے تذکرہ کیا۔آپ نے اتحاد امت اور قرآن کریم پرعمل کے موضوع پر بھی روشنی ڈالی اور کہا کہ قرآن ہر مشکل کی آخری دوا ہے، جن کے پاس قرآن جیسی نعمت ہوانہیں دوسروں کے سامنے کاسۂ گدائی لے کر جانے کی کیا ضرورت ہے۔انہوں نے دار القضاء کی اہمیت و ضرورت پر بھی روشنی ڈالی اور لوگوں سے اپیل کی کہ وہ اپنے ہر قسم کے نزاعات کا حل دار القضاء سے کرائیں۔آپ نے تلک جہیز، شراب نوشی جیسی سماجی برائیوں کے سد باب پر بھی گفتگو کی۔
مولانا مفتی مجیب الرحمن قاسمی معاون قاضی شریعت دار القضا ء امارت شرعیہ نے تمہیدی خطاب میں امارت شرعیہ کی اہمیت وضرورت اور اس کے تاریخی پس منظر پر روشنی ڈالی۔ مولانا محمد شاہد قاسمی قاضی شریعت دھنباد نے اپنے خطاب میں کہا کہ دار القضاء کے قیام کا مقصد معاشرہ میں انصاف کو عام کرنا اور انصاف کی راہ کو آسان بنانا ہے۔ انصاف جس قدر عام ہو گا، معاشرہ میں اسی قدر امن و سکون قائم ہو سکے گا، اس وقت مختلف جہتوں سے شریعت اسلامی کو داغدار کرنے اور نئی نسل کے ذہن ودماغ کو اپنے دین وشریعت سے بیزار کرنے کی کوششیں ہو رہی ہیں، ایسے حالات میں ہمیں نئے جذبہ ایمانی کے ساتھ اپنے دین و شریعت پر عمل کے لیے تیار رہنا چاہئے۔ مولانا افروز سلیمی معاون قاضی دارا لقضاء امارت شرعیہ جمشید پور نے دار القضاء کی توسیع میں امیر شریعت کی خدمات کا تذکرہ فرمایا۔اجلاس کا آغاز مولوی محمد خالد متعلم مدرسہ سلیمانیہ سنہولہ ہاٹ بھاگل پور کی تلاوت کلام پاک سے ہوا، جب کہ مولانا محمد اسامہ قاسمی رکن شوریٰ مدرسہ سلیمانیہ نے استقبالیہ کلمات پیش کیے اور اجلاس کی نظامت کے فرائض مفتی خلیل احمد قاسمی استاذ مدرسہ اصلا ح المسلمین چمپا نگر نے حسن و خوبی کے ساتھ انجام دیے۔جناب مولانا محمد سفیان قاسمی استاذ مدرسہ حسینیہ دگھی، گڈا نے حضرت امیر شریعت کی خدمت میں منظوم سپاس نامہ پیش کیا۔اجلاس میں مولانا الیاس ثمر قاسمی، مولانا اسعد صاحب قاسمی امام و خطیب جامع مسجد پٹنہ جنکشن، مولانا عرفان قیصر قاسمی نے بھی خطاب کیا اور امارت شرعیہ کی مختلف الجہات خدمات کی ستائش کی اور لوگوں سے یہ اپیل کی کہ وہ اپنے معاملات امارت شرعیہ کے دار القضاء سے حل کروائیں۔
اس موقع پر امارت شرعیہ سے تربیت یافتہ عالم دین مولانا نعمت اللہ قاسمی صاحب کو دارا لقضاء مدرسہ سلیمانیہ سنہولہ ہاٹ، ضلع بھاگل پور کا قاضی شریعت مقرر کیا گیا، حضرت امیر شریعت نے اپنے ہاتھوں سے انہیں پورے مجمع کے سامنے سند قضا دیتے ہوئے ان کے قاضی ہونے کا اعلان کیا اور ان کے سر پر دستار قضا باندھی۔ آپ نے انہیں کار قضا میں عدل و مساوات برتنے، تقویٰ اختیار کرنے، مامورات کی انجام دہی اور منہیات سے بچنے کی وصیت بھی کی۔
اجلاس میں جناب ماسٹر خورشید انور صاحب صدر مدرسہ سلیمانیہ سنہولہ ہاٹ، جناب سراج لدین صاحب سکریٹری مدرسہ سلیمانیہ سنہولہ ہاٹ ،حافظ احتشام رحمانی،مولانا محمد اسامہ قاسمی،جناب محمد رفیق صاحب ضلع پریشد کے علاوہ قرب و جوار کے علماء و دانشوران، سیاسی و سماجی شخصیات اور عام لوگوں کی بڑی تعداد اجلاس میں شریک ہوئی اور علماء کرام کے پر مغز خطابات سے مستفیض ہوئی۔ حضرت امیر شریعت مد ظلہ نے دوران خطاب اجلاس کو کامیاب اور با مقصد بنانے کے لیے کوشاں اورسر گرم افراد کا شکریہ ادا کیا۔اجلاس کو کامیاب و بامقصد بنانے میں مولانا محمد فاروق صاحب ناظم مدرسہ سلیمانیہ سنہولہ ہاٹ کے علاوہ مدرسہ کے دیگر اساتذہ، مولانا مزمل حسین قاسمی مبلغ امارت شرعیہ، مولانا سرفراز قاسمی مبلغ امارت شرعیہ شب و روز سرگرم رہے۔آخر میں قاضی شریعت حضر ت مولانا محمد انظار عالم قاسمی صاحب کی دعا پر اجلاس کا اختتام ہوا۔