صادق شروانی
نئی دہلی، 31مئی ، سماج نیوزسروس: کرناٹک میں کانگریس کی تاریخی کامیابی کے بعد پارٹی نے آئند ہونے والے دیگر ریاستوں میں الیکشن میں کامیا بی کا دعو ی کرنا شروع کردیا ہے۔ اس کےلئےپارٹی کے تنظیمیں ڈھانچے میں بڑی سطح پر ترمیم بھی دیکھنے کومل سکتی ہے ۔ خاص طو ر سے دہلی ریاستی کانگریس کمیٹی کے صدر کےلئے جو ڑتوڑ شروع ہوگئی ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ موجودہ ریاستی صدر چودھری انل کمار جلد ہی جائیں گی لیکن ابھی یہ فیصلہ نہیں ہوا ہے کہ ان کو ریاستی صدر کے عہدے سے کب چھٹی ملے گی ۔ حالانکہ گزشتہ کارپوریشن انتخابات 2023میں پارٹی کی اقلیتی حلقوںکو چھوڑ کر تمام علاقوںمیں بری طرح سے شکست ہوئی جس کے بعد سے چودھری انل کمار کو بدلنے کا پریشر پارٹی پر مسلسل رہا ہے۔ ذرائع کے مطابق کانگریس پارٹی میں کچھ ہی دنو ںسے اپنی خدمات انجام دینے والے نوجوان لیڈر کنہیا کمار کو دہلی لانے کی تیاری کی جارہی ہے ۔حالانکہ دہلی کانگریس کے صدر کےلئے دیگر اور بھی کئی ناموں پر غور کیا جارہا ہے۔ جن میں کانگریس کے سابق ریاستی صدر اروندر سنگھ لولی اور سابق ممبر اسمبلی دویندر سنگھ یادو مضبوط دعویدار بتائے جارہے ہیں۔باوثوق ذرائع کے مطابق پارٹی ہائی کمان نے ابھی کوئی حتمی فیصلہ نہیں لیا ہے لیکن کنہیاکمار کے نام کی چرچا زوروں پر ہے سینئر لیڈران کا کہنا ہے کہ کنہیا کمار کو دہلی کی کمان سونپنے پر بھارتیہ جنتا پارٹی کو کرار اجواب دیاجاسکتا ہے ۔ لیکن دوسری جانب دہلی میں کانگریس کے سینئر لیڈر کہنیا کمار کے نام پر ایک رائے نہیں ہے کیوںکہ ان کو لگتا ہے کہ کنہیا کمار باہری ہیں دوسرے دہلی کانگریس میں کافی سینئر لیڈران ہیں جو نہ صرف وزارت کا حصہ رہے ہیں بلکہ انہوںنے زمینی سطح پر بھی کافی کام کیا ہے ۔ ایسا ماناجاتا ہے کہ دہلی کانگریس کو جلدی اپنا نیا صدر مل سکتا ہے۔ جن ناموںپر غور کیا جارہا ہے ان میں کنہیا کمار ،اروندر سنگھ لولی،دویندر یادوغیرہ کے نام شامل ہیں۔ چودھری انل کمارنے لاک ڈائون کے دوران کافی محنت کی تھی اور کانگریس کارکنان کے ذریعہ متاثرین کی مدد بھی کرائی گئی تھی۔
اس معاملے میں دہلی پولس نے ان پر گھروں سے نکلنے کےخلاف مختلف دفعات کے تحت مقدمہ درج کئے ۔ دہلی پولس کا دعوی تھا کہ لاک ڈائون کے دوران کانگریس لیڈران نے دفعہ 144کی خلاف ورزی کی جس وجہ سے ان پر مقدمہ درج کئے گئے ہیں۔ دہلی میں رہائش پذیر ایک بڑے طبقہ کا یہ بھی کہنا ہے کہ کانگریس پارٹی دہلی میں اقلیتی طبقہ تک محدود ہوکر رہ گئی ہے۔ اس بات کا اندازہ اس سے بھی ہوتا ہے کہ گزشتہ کارپوریشن الیکشن میں کل 9کانگریس کے امیدوار کامیاب ہوئے جن میں سے سات مسلم ہیں اور بقیہ دوکونسلروںنے بھی ڈی پی سی سی میں میٹنگ کے دوران اعلی اعلان کہا تھا کہ ہم مسلم ووٹ کےسہارے کامیاب ہوئے ہیں۔ توکیا اس صورت میں کسی مسلم کو خاص طو رپر سابق ریاستی وزیر ہارون یوسف ،چودھری متین احمد اورحسن احمد وغیرہ کو دہلی کانگریس کی کمان سونپی جاسکتی ہے۔ لیکن پارٹی کے ایک قدآور لیڈر نے کنہیا کمار کو کمان سونپنے پر کہا کہ کب کیا چیز چل جائے یہ بتانا یہ کہنا بہت مشکل ہے کنہیا کمار کو باہر سے لاکر دہلی کی کمان سونپ دینا کوئی بڑی بات نہیں ہے کیوں کہ اس سے پہلے بھی دہلی کی کمان باہری لوگوںکو دی گئی تھی جس میں پارٹی کو آگے چل کر بہت بڑا فائدہ ہوا تھا ۔واضح رہے کہ ایک زمانہ میں آنجہانی شیلا دکشت کو جب دہلی کانگریس کی کمان سونپی گئی تو اس وقت کچھ لیڈرناراض بھی ہوئے اورکانگریس کامذاق بھی بنایا تھا لیکن بعد میں اترپردیش سے دہلی لائی گئیں شیلا دکشت نے دہلی کی تصویر بدل دی اور تقریباً 15سال دہلی میں کانگریس کی حکومت بنی اوردہلی کی ترقی میں آج بھی شیلا دکشت کا نام سرفہرست آتا ہے۔