منی پور گزشتہ دو ماہ سے بدترین فسادات کی لپیٹ میں ہے ‘ دو طبقے میتیزایکMeiteis اوردوسرے کوکیزKukis کے درمیان خوفناک آپسی لڑائیاں اور دنگے جاری ہیں ۔فساد بھڑک اٹھنے کی دو وجوہات بتائی جارہی ہیں۔ جنگلات میں کاشت کاری اور کافی پلانٹیشن کا کام کوکیز قبائل کئی صدیوں سے کرتے آرہے ہیں ۔ حکومت نے جنگلات کی زمینات سے بے دخل کرنے کے لئے زبردست مہم کا آغاز کیا۔ دوسرے 27؍ مارچ کو تریپورہ کے ہائی کورٹ سے میتیز کو بھی ریژرویشن دینے کا فیصلہ صادر کیا۔ منی پور کے سرحدی جنگلات میں کئی علیحدہ علیحدہ دہشت گرد گروپس سرگرم ہیں۔امیت شاہ نے منی پور کے P.Dongel-DGP پی ڈونگل عہدہ سے ہٹا کر سنجے سنگھ کو بحیثیت DGP مقرر کردیا۔ غیر کوکیز عہدہ داروں کو کوکیز علاقوں پر مامور کرنے کی اطلاع سے پھر ایک مرتبہ تشدد بھڑک اٹھا۔ بیرون سنگھ بر وقت کشیدہ حالات کو کنٹرول میں لینے میں سراسر ناکام رہے۔ مرکز دفعہ 353 کے تحت اپنے اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے پولیس اور انتظامیہ میں اب تبدیلیاں لا رہا ہے۔ فسادات کی تحقیقات کے لئے ایک کمیشن کا اعلان بھی کیا گیا ہے۔ حیرت تو اس بات پر ہورہی ہے کہ 125 سے زیادہ لوگ مارے گئے ابھی تک صرف 5 مقدمات درج کئے گئے۔ اپوزیشن کا کہنا ہے کہ ان فسادات کے پیچھے حکمران جماعت کا ہاتھ ہے۔ پولیس کی موجود میں کس طرح سے دنگائی کھلے عام بے قصور لوگوں کے گھر بار سپرد آتش کرتے پھر رہے ہیں ۔
میتیزاصل منی پوری ہندو ہیں کو کوکیز اور ناگا قبائل کے کئی ذیلی گروپس اور طبقات آباد ہیں ۔27؍ مارچ سے وقفہ وقفہ سے قتل ‘ لوٹ اور آتشزدگی کے واقعات پھوٹ پڑرہے ہیں ۔75 عام شہریوں کے علاوہ 40 کوکیز دہشت گردوں کو پیرا ملٹری فورسیس نے انکاونٹرس میں ہلاک کردیا ۔ بی جے پی کے بیرن سنگھ چیف منسٹر پر یہ الزام ہے کہ وہ ایک طرفہ معاندانہ کاروائیاں کوکیز کے خلاف کر رہے ہیں۔
منی پور کی جملہ آبادی 30 لاکھ نفوس پر مشتمل ہے ۔ 41.39% ہندو میتیز اور 41.29% کرسچین اور 8.4% مسلمان و باقی 7% فیصد آبادی دوسرے اوردیگر مذاہب کے ماننے والے جیسے بدھ‘ جین ‘ سکھ ‘ براکا‘ نیپالی ‘ بنگالی ‘ مائنمار سے آئے ہوئے لوگ آباد ہیں ۔
کرسچین اور ہندوؤں کی آبادی مساوی ہے حکمران جماعت میتیز (ہندوؤں) کو ایک جانب مکمل تعاون کرتے ہوئے لوٹ ‘ آتش زنی ‘ قتل اور کرسچنوں پر حملوں کی اجازت دے دی ہے۔
The Indian Express نے اپنے اداریہ میں لکھا ہے کہ حکومت کی مشنری ٹھپ اور ناکارہ ہوچکی ہے ۔ ایسے وقت منی پور جل رہا ہے مرکزی حکومت کا کام ہے کہ وہ تھوڑی مداخلت کرتے ہوئے دونوں طبقات کو اعتماد میں لیتے ہوئے امن کی برقراری کے لئے ہر ممکنہ کوشش کرے۔
MLA‘ MP’s اور وزرا کے گھروں پر حملے کئے جارہے ہیں ‘ پیرا ملٹری فورسیس کے اسلحہ ڈپو کو لوٹ لیا گیا ہے ۔ میدانی علاقوں میں کوکیز رہتے ہیں اور پہاڑی علاقوں پر زیادہ تر میتیز آباد ہیں ۔ میدانی شہروں اور گاؤں میں آبادی کا بڑا حصہ آباد ہے ‘ 92% پہاڑی علاقوں پر صرف 8% آبادی ہے۔ایک دوسرے پر تشدد اور دہشت گردی کا الزام لگایا جارہا ہے ۔ سابق ایم ایل اے ‘ اے آنند کا کہنا ہے کہ منی پور دفعہ 355 کے تحت راست مرکزی حکومت کیوں امن کے قیام کے لئے پس و پیش کررہی ہے۔
منی پور کی بڑی پیچیدہ صورت حال ہے ‘ ہندو اور کرسچین آبادی کے اعتبار سے تقریباً (41.39% اور 41.28% ) مساوی ہیں۔دراصل عیسائیوں اور مسلمانوں کی کل آبادی مجموعی طور پر ہندو اور مقامی قبائل سے زیادہ ہے۔ اس کے علاوہ پڑوسی ممالک کے مائنمار کے آئے ہوئے مہاجرین اورNSCN‘ جس کو چین کمیونسٹ پارٹی CCP‘ نیشنل سوشلسٹ کونسل آف ناگا لینڈ جیسے دہشت گردگروپوں کی سرگرمیاں عروج پر ہیں۔
مائنمار ‘ ہندوستان کی تقریباً 16 سو کیلو میٹر کی سرحدیں ملتی ہیں اور کئی سرحدی چھوٹے شہروں میں روزانہ جب بازار کھلتا ہے تو مائنمار سے خرید و فروخت کے لئے کاروباری لوگ آتے جاتے ہیں ۔منی پور کے شہریوں کا رہن ‘ سہن ‘ تہذیب و تمدن مائنمار قوم کی طرح ہی ایک جیساہے ۔ آزادی سے بہت پہلے منی پور مائنمار کا حصہ ہوا کرتا تھا۔ہندوستان کو منی پور کے راستے کے ذریعے پہلے مائنمار کے سے ڈرگس اور افیون درآمد کیا جاتا تھا ۔ اب منی پور کے جنگلات میں ڈرگس مافیا بڑے پیمانے پر افیون کی کاشت غیر قانونی طور پر کر رہے ہیں اس کے علاوہ کافی پلانٹیشن سے جڑے کئی طاقتور گروپس بھی متحرک ہیں ‘ ڈرگس مافیا کو سیاسی جماعتوں کی سرپرستی حاصل ہے۔
بی جے پی سرکار مکمل طور پر میتیز (ہندوؤں) کا ساتھ دیتے ہوئے کرسچین اور دوسرے طبقات کو کمزور کرنا چاہتی ہے۔ اس لئے کہ 40 سے زیادہ کوکیز پر دہشت گردی کا الزام لگا کر انھیں موقع پر ہلاک کردیا گیا۔حکومت کا الزام ہے کمیونسٹ پارٹی آف چینا CCP‘ نکسلائٹس ناگا قبائل ‘ مافیا اور کوکیز کے مسلحہ گروپس منی پور کے امن و امان کو برباد کر رہے ہیں ۔ فسادات سے متعلق خبروں کو دبا دیا جارہا ہے ۔ کئی سو چرچس اور عیسائیوں و کوکیز کے بستیوں کے بستیاں سپرد آتش کر دی گئیں ہیں ۔ منی پور فسادات میں حکومت کی بیجاطرفداری اور فسادیوں کو کھلی چھوٹ اس با ت کی دلیل ہے کہ یہ فساد منظم پیمانے پر بھڑکایا گیا ہے ۔ ہجومی تشدد کو دیکھتے ہوئے بھی پیرا ملٹری فورسیس تماشہ بین بنی بیٹھی انسانی تباہی کی بدترین تصویر پیش کر رہے ہیں ۔ کوکیز اور عیسائیوں کے گھر بار سب تباہ کئے جارہے ہیں ۔ریلیف کیمپوں میں ابھی تک کئی لاکھ لوگ پہنچ چکے ہیں انھیں پانی ‘ غذا کی سخت ضرورت ہے ۔
بی جے پی اور آر ایس ایس کے ترجمان ایسے موقع پر بھی اپنے صحافتی بیان میں روہنگیا اور ارکان آرمی کوفسادات میں ملوث قرار دے رہے ہیں جو بے انتہا ئی لغو اور بے بنیاد ہے ۔ 2014 میں UNO اور وزارت داخلہ ہند کے مطابق 24 ہزار روہنگیا پناہ گزیں ملک کے مختلف شہروں میں عارضی جھونپڑیوں کے کیمپس میں مقیم تھے ۔ روہنگیا پناہ گزینوں کو زبردستی بدنام کرنے کے لئے گھسیٹا جارہا ہے ۔بی جے پی حکومت کی 2017 سے 22 تک روہنگیا پناہ گزینوں پر بے جا سختیوں اوربار بار گرفتاریوں اور ان کے عارضی کیمپوں کو سپرد آتش کرنے کی وجہہ سے پریشان ہو کر بڑی تعداد میں بنگلہ دیش لوٹ چکی ہے ۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ گزشتہ ریاستی انتخابات 22 کے موقع پر بی جے پی کو40نشستیں (37.85% ووٹ) ملے اور کانگریس کو5 نشستوں پر(18.57%) کامیابی حاصل ہوئی ۔ اس مرتبہ کانگریس کو 23 نشستوں کا نقصان ہوا ۔حیرت تو اس بات پر ہے کہ کس طرح ایک عیسائی بڑی آبادی رکھنے والی ریاست میں بی جے پی 60 میں سے 40 نشستیں کیسے حاصل کرسکی؟۔ کیا عیسائی اور مسلمانوں کےووٹوں کو منقسم کردیا گیا تھا یا پھر الیکشن میں بڑے پیمانے پر EVM کی الٹ پھیر سے ووٹوں سے کانگریس کو 23 نشستوں کا نقصان اٹھانا پڑا تھا۔
بی جے پی کی اقلیت دشمن پالیسی:
بی جے پی کی اقلیتوں کے خلاف کی جانے والی معاندانہ کاروائیوں ایک اور خوفناک تصویر منی پور کے فسادات میں دیکھنے کو مل رہی ہے ۔جس طرح مظفر نگر ‘ کشمیر ‘ آسام ‘ دہلی اور ملک کے دیگر مقامات پر مسلمانوں پر ایک طرفہ کاروائیاں ‘ ہلاکت خیز حملے ‘ لوٹ مار ‘ آتشزنی گزشتہ 9 سال سے کئے جارہے ہیں ۔ ٹھیک اسی طرح کی صورت حال آج منی پور میں دیکھنے میں آرہی ہیں۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ گزشتہ ریاستی انتخابات 22 کے موقع پر پڑوسی ریاستوں اور شمالی ہند سے آر ایس ایس کے لاکھوں کارسیوک کئی ماہ تک گھر گھر ہندوتوا کی سخت جدوجہد کے ذریعہ مہیم چلاتے ہوئے بی جے پی نے زبردست کامیابی حاصل کرلی اور بی جے پی کے بیرون سنگھ نے بحیثیت چیف منسٹر عہدہ پر فائز ہوگئے ‘ سیاسی ماہرین دم بخود تھے60 اسمبلی نشستوں میں 20 سے زیادہ نشستوں کا بی جے پی کو کسی بھی صورت میں ملنا محال تھا۔ آر ایس ایس نے الیکشن انجینئرنگ کے ذریعہ سماجی تبدیلیوں اور کرسچین اور مسلمانوں کے ووٹوں کومنقسم کرنے میں کامیاب حکمت عملی اختیار کی تھی۔ مصدقہ اطلاعات کے مطابق گزشتہ چند ماہ سےرام مادھو سابقہ سکریٹری بی جے پی اور موجودہ آر ایس ایس کے نیتا کی حیثیت سے طویل عرصہ تک منی پور میں ایک خاص ایجنڈے کے تحت مقیم رہے ۔ اس وقت سے اقلیتوں میں تشویش کی لہر دوڑ گئی تھی ‘ رام مادھو کے خصوصی دورے ہمیشہ نقصاندہ ثابت ہوتے رہے‘ کشمیر میں بھی ان کے دورے کے موقع پر دانشوروں و سیاست دانوں نے اپنے خدشات کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ ایک بہت بڑی مصیبت کا سیلاب اُمنڈنے والا ہے اور جو کچھ ہوا دنیا نے دیکھ لیا۔بی جے پی کے پاس آئندہ 4 سال حکومت کی باگ ڈور رہنے والی ہے ۔سیکولر سیاست دان و مبصرین اس بات کے خدشات کا اظہار کر رہے ہیں ہوسکتا ہے کہ اس دوران اقلیتوں و دیگر قبائل اور کمیونسٹ گروپس کا مکمل صفایہ کرتے ہوئے اور مذہبی ‘ سماجی ‘ سیاسی توازن میں تبدیلی رونما کی جائے گی‘اس اتھل پتھل کی وجہ سے اس کے مستقبل میں دور رس اثرات مرتب ہوں گے۔
ایک اور اہم بات یہ بھی کہی جارہی ہے کہ افیون کی غیر قانونی ہونے والی کاشت اور تجارتی فائدہ کے لئے بی جے پی کی مقامی قیادت مکمل کنٹرول حاصل کرنا چاہتی ہے ۔وزیر داخلہ منی پور کے صحافتی بیان کے مطابق جملہ 5 مقدمات درج ہوئے ہیں ‘ کیا انٹلیجنس ایجنسیاں اس بات سے واقف نہیں ہے کہ اتنے بڑے پیمانے پر کوئی فسادات ودنگے گزشتہ دو ماہ سے منظم کئے جارہے ہیں ‘ اب جب کہ سب کچھ جلا کر راکھ میں تبدیل کردیا اب بڑی تاخیر سے وزیر داخلہ امیت شاہ اس بات کیہ وارننگ دے رہے ہیں کہ کسی مجرم کو چھوڑا نہیں جائے گا۔
حزب مخالف کے اراکین اسمبلی کا کہنا ہے کہ شاہ کا یہاں قیام مشکوک و شبہات سے خالی نہیں ہے۔امیت شاہ کا امپھال میں تین دن کا قیام محض اس لئے رہا کہ میتیز کو کس طرح سے تحفظ فراہم کیا جائے اور اقلیتوں کے خلاف بھڑکائے گئے فساد میں کس طرح کمزور کرنے کے لئے پولیس ‘ پیرا ملٹری فورسیس اور ایجنسی اقدامات کرے۔
امیت شاہ کی صدارت میں کل جماعتی اور تمام طبقات اور قبائل کے رہنماؤں کی ایک میٹنگ طلب کی تھی ‘ کوکیز ‘ عیسائی ‘ مسلمان ‘ سوشلسٹ تنظیموں اور قائدین نے متحدہ طور پر اس کا بائیکاٹ کیا ان کا کہنا ہے کہ اس قسم کے بناوٹی میٹنگس سے منی پور میں امن قائم نہیں ہوگا بلکہ بی جے پی کا ایجنڈہ یہ ہے کہ امن کے ایجنڈے کے سائے تلے ظلم و بربریت اور استبداد کی چکّی میں ہندوتوا کے مخالفین کو کچل دیا جائے ۔
40 کوکیز کی پیرا ملٹری فورسیس کی جانب سے انکاؤنٹر کئے جانے کے بعد ساری ریاست میں ایک خوف کی لہر پیدا ہوگئی ہے۔ اقلیتوں میں سخت غم و غصہ اور بے بسی کے ساتھ انتقام لینے کی چنگاری سلگ رہی ہے ۔ جب تک ریاستی و مرکزی حکومت منی پور میں عوام کے ساتھ عدل و انصاف کا معاملہ نہیں کرے گی حالات معمول کے مطابق بحال ہونا نا ممکن نظر آرہاہے ۔
ہر ریاست اور علاقے میں مقامی حالا ت اور آبادی کے تناسب سے بی جے پی اپنے انتہا پسند ہندوتوا ایجنڈے کو کامیابی کے ساتھ روبہ عمل لا رہی ہے یہ بات عیاں ہوچکی ہے کہ منی پور میں حکومت کی مشنری ‘ پیرا ملٹری فورس ‘ سیوک سنگھ کے کارکن اور انتہا پسند ہندوتوا کی تنظیمیں اقلیتوں خاص کر عیسائیوں کے تخفیف آبادیDe Population پروجکٹ پر متحدہ طور پر کام کر رہے ہیں ۔
بی جے پی حکومت کے نمائندوں کا کہنا ہے کہ بہت نازک حساس مسئلہ ہے ‘ ہم کسی ایک کی تائید نہیں کرسکتے ‘ ہم چاہیں گے کہ دونوں کے مسائل کو سن کر اس کا مناسب حل نکالیں ‘ کچھ وقت لگے گا ہم امن قائم کرکے رہیں گے۔
عارضی ریلیف کیمپوں میں دونوںطبقوں کے لاکھوں افراد سر چھپائے پہنچ چکے ہیں۔ ان کے غذا‘ پانی ‘ بیت الخلا‘ صحت اور روشنی کے لئے ابھی تک کوئی خاطر خواہ انتظامات کرنے میں حکومت بری طرح ناکام نظر آرہی ہے ۔ حکومت نے اعلان کیا ہے کہ مہلوکین کے خاندان کو 10 لاکھ اور مکانات کی مرمت کے لئے 5 لاکھ ریلیف دی جائے گی وغیرہ۔
خدشہ اس بات کا ہے کہ جو اعلانات ہوئے ہیں اس کا راست فائدہ میتیز اٹھالیں گے اور عام کوکیز کو مجرم قرار دے کر طویل عرصے تک مقدمہ چلاتے ہوئے جیل میں مقید ر کھا جائے گا۔
حزب مخالف سیکولر جماعتوں کے ایک وفد نے صدر جمہوریہ مرمو سے ملاقات کرکے منی پور کے حالات سے واقف کروایا اور حکومت کو اس امن کی برقراری کے لئےفوری اقدامات پر زور دیا ‘ اب دیکھنا یہ ہے کہ بی جے پی مستقبل کے منی پور کی کس رخ پر تعمیر کرتی ہے ۔
از:ناظم الدین فاروقی