ڈاکٹرمظفرحسین غزالی
9810371907
گجرات کے موربی میں مچھو ندی پر بنے 143 سال پرانے کیبل پل کے ٹوٹنے سے تقریباً 150لوگوں کی جان چلی گئی۔ جن میں 55 بچے شامل تھے۔ ابھی تک 170 لوگوں کو بچایا جا چکا ہے۔ 50 سے زیادہ لاپتہ ہیں جبکہ 70 زخمی ہیں۔ چھٹی کی وجہ سے پل پر گھومنے آئے کئی خاندان ختم ہو گئے۔ حادثہ میں کسی نے اولاد کھوئی تو کسی نے جیون ساتھی۔ کسی خاندان میں صرف چار سال کا بچہ بچا ہے تو کسی میں صرف حاملہ خاتون۔ رنج والم کی کئی کہانیاں اب بھی سامنے آ رہی ہیں۔ اس واقع سے ایک طرف موربی سمیت پورے ملک کے لوگ غم زدہ ہیں۔ تو وہیں دوسری طرف کچھ خاندان قسمت والے رہے، وہ حادثہ کا شکار ہوتے ہوتے بچ گئے۔ انہیں میں امریلی کے رہنے والے ساگر مہتا اور میہل راول کا خاندان ہے۔ پل ہلنے سے ساگر کا چھوٹا بیٹا نیتر ڈر گیا اور رونے لگا۔ اس نے رونا بند نہیں کیا تو خاندان پل سے اتر گیا۔ میہل ان کی اہلیہ، بچے، بہن، بہنوئی، بھانجے کل ملا کر وہ نو لوگ پل پر گھومنے گئے تھے۔ بیچ میں پہنچ کر بھیڑ کی وجہ سے گھر کے لوگوں کو پریشانی محسوس ہونے لگی اور انہوں نے واپس لوٹنے کا فیصلہ کیا۔ ابھی ان کا خاندان کنارے پر پہنچ ہی رہا تھا کہ پل ٹوٹ گیا۔ میہل زخمی ہوئے لیکن خاندان کے لوگ بچ گئے۔
یہ پل گزشتہ چھ ماہ سے مرمت کی وجہ سے عام لوگوں کے لئے بند تھا۔ گجراتی نئے سال کے موقع پر دیوالی کی ہڑ بڑی میں جے سکھ بھائی پٹیل نے 25 اکتوبر کو اپنی پوتی کے ہاتھوں فٹ نیس اور تین سرکاری ایجنسیوں کی جانچ کے بغیر اس کا افتتاح کرادیا۔ 1880 میں بنا یہ پل 230 میٹر لمبا اور 1.25 میٹر چوڑا تھا۔ اس کی مرمت پر دو کروڑ روپے خرچ کئے گئے تھے۔ موربی نگر پالیکا کے ساتھ ہوئے قرار کے مطابق پل کے رکھ رکھاؤ، صاف صفائی، حفاظت اور ٹول وصولنے کی ذمہ داری پندرہ سال کے لئے جے سکھ بھائی پٹیل کی اوریوا کمپنی کو دی گئی ہے۔ برج پر گھومنے آئے بالغوں کو 17 روپے اور بچوں کے لئے 12 روپے کا ٹکٹ خریدنا ہوتا تھا۔ گجرات پولس کے حلف نامہ کے مطابق رینویشن کے نام پر برج پر لگے لکڑی کے بیس کو ہٹا کر المونیم کی چار لیئر والی چادر لگا دی گئی تھی۔ جس سے برج کا وزن بہت بڑھ گیا تھا۔ اسٹرکچر کی مضبوطی پر دھیان دینے کے بجائے فلورنگ اور رنگ و روغن پر توجہ دی گئی۔ انجینئروں کی جانچ سے معلوم ہوا ہے کہ کیبل کو سنبھالنے والی اینکر پنوں کی مضبوطی کو نظر انداز کیا گیا۔ جبکہ یہ پن ہی پل کے لوڈ کو سنبھالنے کا کام کرتی ہیں۔ لوڈ پڑنے پر دربار گڑھ سرے پر لگی اینکر پن اکھڑ گئی اور پل ایک طرف جھک کر ندی میں گر گیا۔
اینکر پن میں 125 لوگوں تک کے لوڈ کو سنبھالنے کی صلاحیت تھی۔ لیکن حادثہ کے وقت پل پر 400 سے زیادہ لوگ موجود تھے۔ یہ واقعہ ایسے وقت ہوا جب وزیراعظم نریندر مودی ریاستی انتخاب کے پیش نظر گجرات کے دورے پر تھے۔ اتنے بڑے سانحہ کے باوجود دوسرے دن کے راشٹریہ ایکتا دیوس کی تقریب منسوخ یا ملتوی نہیں کی گئی۔ ولبھ بھائی پٹیل کے دیو ہیکل مجسمہ پر پہنچ کر پریڈ اور سلامی وغیرہ سب کچھ حسب معمول ہوئی۔ بس ان کی تقریر میں موربی کے متاثرین پر ایک پیرہ گراف کا اضافہ ہو گیا۔ انہوں نے اپنی تقریر میں رنج وغم کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اگر چہ وہ کیوڈیا میں ہیں لیکن ان کا دل موربی حادثہ کے متاثرین سے جڑا ہوا ہے۔ دنیا بھر سے جب تعزیتی پیغام آنے لگے تو کیوڈیا کی تقریب کا ثقافتی پروگرام منسوخ کر دیا گیا۔ انہیں دو دن دیگر تقریبات میں حصہ لینا تھا مگر مجبوراً احمد آباد کا روڈ شو اور پنا پرمکھ سمیلن کو رد کرنا پڑا۔ انہوں نے سنگ دلی کے مظاہرہ کا جواز کچھ اس طرح دیا کہ”ایک طرف غم سے لبریز دل ہے تو دوسری طرف عمل اور ادائے فرض (بی جے پی کو الیکشن جتانے کے لئے ماحول بنانا) کا راستہ“۔ پلوامہ حملے کے وقت بھی ان کا کچھ اسی طرح کا رویہ سامنے آیا تھا۔ گجرات میں رہتے ہوئے انہیں موربی سانحہ کا جائزہ لینے اور متاثرین سے ملنے کا وقت واقعہ کے تیسرے دن ملا۔
ٹیوٹر پر اپ لوڈ ہوئے مودی جی کے تعزیتی پیغام کی ویڈیو دیکھ کر بے ساختہ ان کا جملہ (آپدا میں اوسر یعنی مصیبت میں موقع) نظروں کے سامنے سے گزر گیا۔ انتہائی غمزدہ لہجے میں فرمایا ”موربی میں ایک بھیانک غمزدہ کرنے والی گھٹنا سے دل بہت بوجھل ہے۔ میں تذبذب میں تھا، ترقی کے کام ہیں۔ بناس کانٹھا میں پانی کی کیا اہمیت ہے میں جانتا ہوں۔ پروگرام کروں یا نہ کروں؟ لیکن آپ کی محبت، جذبہ خدمت، فرض سے متعلق میری تربیت، اسی وجہ سے دل مضبوط کرکے تمہارے درمیان آیا ہوں۔ بناس کانٹھا اور شمالی گجرات میں پانی کے مسائل حل کرنے کی خاطر آٹھ ہزار کروڑ کے پروجیکٹ لے کر آیا ہوں“۔ کیا اسے خود پرستی، انتخابی خطاب یا الیکشن کا جنون نہیں کہیں گے۔ حد تو اس وقت ہو گئی جب وزیراعظم کے موربی دورے کے پیش نظر ماتم کے بیچ راتوں رات اسپتال کی رنگائی پتائی کرکے مودی جی کے استقبال کی تیاری کی گئی۔ وارڈ میں مریضوں کے لئے نئے بیڈ اور کولر لگائے گئے۔ اسپتال کی تمام کمیوں کو ڈھک دیا گیا۔ جبکہ ایک دن پہلے اسی اسپتال میں سو لاشیں لائی گئی تھیں۔ افرا تفری کا ماحول تھا، اپنوں کی تلاش میں لوگ روتے بلکتے پھر رہے تھے۔
اگر اس طرح کا سانحہ کسی دوسری ریاست میں رونما ہوا ہوتا تو وہاں صدر راج نافذ کر دیا جاتا یا پھر سڑک اور پل کے وزیر پر سی بی آئی، ای ڈی کا چھاپہ پڑ گیا ہوتا۔ ٹھیکیدار کے ساتھ اس کے تعلقات کی کہانیاں میڈیا میں گردش کرتیں، پالتو میڈیا پرائم ٹائم میں اس کا ٹرائل کرتا۔ لیکن گجرات میں موربی سانحہ کی ایف آئی آر میں اس کے اصل مجرم اوریوا کمپنی کے مالک جے سکھ بھائی پٹیل، موربی نگر پالیکا کے چیف سندیپ سنگھ جھالا، موربی کے ڈی ایم جی ٹی پنڈیا، رینوویشن کا کام کرنے والی کمپنی دیو پرکاش سالیوشن اور پل کی نگرانی کرنے والے نگر پالیکا کے انجینئروں کا نام تک نہیں ہے۔ پولس نے اوریوا کمپنی کے دو منیجر، دو مزدور، تین سیکورٹی گارڈز اور دو ٹکٹ کلرکوں پر حادثہ کی ذمہ داری ڈالتے ہوئے گرفتار کیا ہے۔ تعجب کی بات یہ ہے کہ تین سو روپے کے اسٹامپ پیپر پر نگر پالیکا کے ساتھ اوریوا کمپنی کے معاہدے میں لکھا ہے کہ کمپنی کو ٹکٹ کے پیسے بڑھانے اور پل کے کمرشیل استعمال کرنے کا حق ہوگا۔ سرکاری ایجنسیاں اس میں دخل نہیں دے سکتیں۔ تین صفحہ کے اس معاہدے میں یہ ذکر نہیں ہے کہ حادثہ کی صورت میں کون ذمہ دار ہوگا۔
یاد کیجئے 31 مارچ 2016 کو کولکاتہ میں وویکا نند فلائی اوور منہدم ہو گیا تھا۔ اس کی تعمیر کرنے والی کمپنی آئی وی آر سی ایل کے پانچ اہلکاروں کی گرفتاری عمل میں آئی تھی۔ اس حادثہ میں 26 لوگ ہلاک اور 88 دیگر زخمی ہوئے تھے۔ کمپنی نے اپنے لوگوں کو بچانے کےلئے اسے ایکٹ آف گوڈ کہا تھا۔ اس پر نریندرمودی ممتا بنرجی پر خوب برسے تھے۔ انہوں نے اسے ایکٹ آف فراڈ کہا تھا۔ ان کا 7 اپریل 2016 کا ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوا ہے۔ جس میں وہ کہتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں کہ یہ حادثہ انتخاب کے دوران ہوا ہے تاکہ عوام کو پتہ چلے وہ (ممتا بنرجی) کس طرح حکومت چلا رہی ہیں۔ خدا نے عوام کو پیغام بھیجا ہے کہ آج ایک پل منہدم ہوا ہے کل پورا مغربی بنگال (ڈھے) جائے گا۔ کم از کم مرنے والوں کا احترام کیا جائے لیکن دیدی کی نظر میں مرنے والے افراد نہیں بلکہ کرسی ہی سب کچھ ہے۔ آج یہی الفاظ مودی جی اپنی جانب لوٹ آئے ہیں۔ گجرات حکومت نے موربی سانحہ کے بعد ریاستی غم کا اعلان کیا ہے۔ لیکن اسی ریاست کے وزیر صحت رشی کیش پٹیل کی سالگرہ کے جشن کی تصاویر ذرائع ابلاغ کی زینت بنیں۔ انہیں دیکھ کر سب کو نصیحت دینے والے وزیراعظم، بی جے پی اور اس کے پالتو میڈیا کے کان پر جوں تک نہیں رینگی۔ کیا یہی ہے مودی جی کا نیا بے حس بھارت؟
گجرات جسے ہندوتوا کی تجربہ گاہ بنایا گیا۔ ہندو مسلم تفریق کو انتہاءپر پہنچایا گیا۔ موربی حادثہ نے ثابت کر دیا کہ نفرت کا غبارہ کتنا ہی پھلایا گیا ہو اس کی کوئی حقیقت نہیں ہوتی۔ جنہیں وزیراعظم کپڑوں سے پہچاننے کی بات کرتے ہیں۔ انہیں نے اپنی زندگی کو داؤ پر لگا کر ڈوبتی ہوئی زندگیوں کو بچایا۔ حادثہ والے دن نعیم شیخ اپنے پانچ دوستوں کے ساتھ پل پر گھومنے گئے تھے۔ پل ٹوٹا تو یہ بھی ندی میں گر گئے۔ نعیم تیرنا جانتے ہیں، انہوں نے اپنے دوستوں کے ساتھ مل کر ڈوبتے ہوئے پچاس ساٹھ لوگوں کو ندی سے باہر نکالا۔ اس میں ان کے ایک ساتھی کی موت ہو گئی اور وہ خود بھی زخمی ہو گئے۔ نعیم کے علاوہ حلیمہ نام کی ایک خاتون نے بھی لوگوں کو ندی سے باہر نکلنے میں مدد کی اور زخمیوں کو اسپتال پہنچایا۔ موربی سانحہ میں جس نے بھی لوگوں کو بچانے کا کام کیا۔ ان کی ہمت افزائی ہو اور کوشش کو سراہا جانا چاہئے۔ اس طرح کے واقعات سے سبق سیکھ کر مستقبل کی پیش بندی کی جائے۔ جو چلے گئے انہیں تو واپس نہیں لایا جا سکتا۔ لیکن ان کے گناہ گاروں کو سزا دے کر آئندہ ہونے والے حادثات کو ضرور روکا جا سکتا ہے۔