غالب انسٹی ٹیوٹ کے زیر اہتمام بیگم عابدہ احمد یادگاری خطبے کا انعقاد کیا گیا۔ اس یادگاری خطبے کو معروف دانشور ڈاکٹر سیدہ سیدین حمید نے ’تعلیم کے فروغ اور قومی تعمیر میں مسلم خواتین کا کردار‘کے موضوع پر خطاب کیا۔ اپنے خطاب میں انھوں نے فرمایا کہ مسلم خواتین کے قائدانہ کردار پر جب ہم بات کرتے ہیں تو عام خیال یہ ہوتا ہے کہ گفتگو 1947 کے بعد سے شروع ہوگی۔ حالانکہ میں نے جب اس موضوع پر مطالعہ کیا تو معلوم ہوا کہ 1857 میں بھی ہمارے یہاں ایسی خواتین تھیں جن کی قائدانہ صلاحیتوں نے انگریزی منصوبوں کو کافی حد تک بے اثر کر دیا تھا۔ ہم نے مسلم خواتین کے خود ساختہ مسائل کو موضوع بنایا جن سے سیاسی مقاصد بھی حل ہو جاتے ہیں۔ حالانکہ انسانی فروغ کے سلسلے میں ان کے کیا مسائل ہیں ان پر سچر کمیٹی کے بعد سے بہت کم توجہ دی گئی بلکہ کہنا چاہیے نہیں دی گئی۔ اس خطبے کی صدارت غالب انسٹی ٹیوٹ کے چیئرمین جسٹس جناب بدر درریز احمد صاحب نے کی۔ صدارتی خطاب میں انھوں نے کہا کہ بیگم عابدہ احمد ایک منصوبہ ساز شخصیت کی مالک تھیں۔ انھوں نے جو اقدام کیے ان کے نتائج کا فیضان آج تک عام ہے۔ آج کے خطبے کا موضوع اور ان کی شخصیت میں گہرا ربط ہے۔ سیدہ سیدین حمید صاحبہ نے جس انداز سے اس موضوع کے پہلووں کو واضح کیا ہے اس کا انھیں حق ہے۔ ان کے خانوادے میں علمی روایت کا روشن سلسلہ رہا ہے۔سیدہ سیدین صاحبہ چونکہ خود بھی ایسے اداروں سے وابستہ رہی ہیں جو خواتین کے مسائل پر سنجیدگی سے غور کرتے ہیں لہٰذا ان کو ان مسائل کی اہمیت کا بھی اندازہ ہے اور اس کے تدارک کے لیے کیا منصوبے ہونے چاہئیں اس سے بھی واقف ہیں۔ غالب انسٹی ٹیوٹ کے سکریٹری پروفیسر صدیق الرحمٰن قدوائی نے استقبالیہ کلمات ادا کرتے ہوئے کہا کہ عزت مآب فخرالدین علی احمدہوں یا بیگم عابدہ احمد صاحبہ ان کی شخصیت اتنی پہلو دار تھی کہ انھیں کسی ایک خانے میں مقید کرنا زیادتی ہوگی۔ ان لوگوں نے ادب اور سماج دونوں کے رشتے کو بڑی ذمہ داری سے نبھایا ہے۔ یہی سبب ہے کہ ان کے نام سے منسوب ان خطبوں میں ہماری کوشش رہتی ہے کہ خالص ادبی مسائل سے ہٹ کر کچھ گفتگو ہو ۔ سیدہ سیدین حمید صاحبہ ہر لحاظ سے اس موضوع پر بات کرنے کے لیے موزوں شخصیت ہیں۔پروفیسر اختر الواسع اس خطبے میں بطور مہمان خصوصی شریک تھے۔ اپنے خطاب میں انھوں نے کہا کہ خواتین کے مسائل وہ بھی ہیں جن کو عام طور پر پیش کیا جاتا ہے لیکن وہ مسائل زیادہ اہم ہیں جن کو چھپایا جاتا ہے یا ان پر بات کرنے سے گریز کیا جاتا ہے۔ سیدہ سیدین صاحبہ نے جس موضوع کو اٹھایا ہے میں سمجھتا ہوں اس کی اہمیت سے کسی کو انکار نہیں ہو سکتا۔ غالب انسٹی ٹیوٹ کے ڈائرکٹر ڈاکٹر ادریس احمد نے کہا کہ غالب انسٹی ٹیوٹ سال میں دو یادگاری خطبات کا انعقاد کرتا ہے۔ ایک فخر الدین علی احمد یادگاری خطبہ اور دوسرا بیگم عابدہ احمد یادگاری خطبہ۔ ابھی گذشتہ 22 مئی کو یہاں فخرالدین علی احمد یادگاری خطبے کا انعقاد کیا گیا تھا جس میں پنجابی یونیورسٹی پٹیالہ کے وائس چانسلر پروفیسر اروند تشریف لائے تھے۔ یہ خطبہ عالمانہ مطالب سے بھرپور تھالہٰذا بیگم عابدہ احمد میموریل لکچر کے لیے بھی ہم نے ڈاکٹر سیدہ سیدین جیسی علمی شخصیت سے گزارش کی جو اپنی علمی اور ثقافتی خدمات کے لیے ملک و بیرون ملک شہرت رکھتی ہیں۔ ہماری خوش قسمتی ہے کہ انھوں نے اس درخواست کو قبول کیا۔ بیگم عابدہ احمد 1982 سے2003 تک غالب انسٹی ٹیوٹ کی چیئرمین رہیں۔ آپ نے ہی اس ادارے میں غالب میوزیم اور ہم سب ڈرامہ گروپ کی بنیاد رکھی تھی۔ آج یہ ادارہ جس منزل پر ہے اس میں بیگم صاحبہ کی قربانیاں شامل ہیں۔ ہمالیہ گروپ کے صدر جناب ایس فاروق صاحب نے کہا کہ اگر کچھ لوگ سیاسی مفاد کے لیے عوتوں کے مسائل کا رخ موڑتے ہیں تو دانشور طبقے کو چاہیے کہ ان کے اصل مسائل کو مرکز میں لائیں۔ مجھے خوشی ہے کہ آج کے اس لکچر سے یہ کام بحسن خوبی مکمل ہوتا ہے لیکن ایسی مزید کوششیں ہونی چاہیے۔ میں غالب انسٹی ٹیوٹ کو بھی مبارکباد پیش کرنا چاہتا ہوں جس کے ذمہ داروں نے اس اہم موضوع کا انتخاب کیا۔ اس موقع پر علم و ادب اور سماجی شعبوں سے وابستہ افراد نے کثیر تعداد میں شرکت فرمائی۔
تصویر میں دائیں سے: ڈاکٹر سیدہ سیدین حمید، ڈاکٹر ادریس احمد، پروفیسر اخترالواسع، جسٹس جناب بدردرریز احمد، پروفیسر صدیق الرحمٰن قدوائی، جناب ایس فاروق