نئی دہلی،21؍جولائی،:، ہمارا سماج: 123وقف جائیدادوں کا معاملہ طویل عرصے التواع میں ہے جس پر ایل این ڈی او اور ڈی ڈی اے اپنے مالکانا حق جتا رہے ہیں اور دوسری طرف دہلی وقف بورڈ 1970کے گزٹ نوٹیفیکیشن اور دیگر دستاویزات کی بنا پر انہیں وقف جائیداد تسلیم کرانا چاہتے ہیں ۔ اس کے بر عکس 8فروری 2023ء کو ایل این ڈی او کی جانب سے ایک نوٹس جاری کیا گیا جس میں 123وقف جائیدادوں کا سروے کرنے کی بات کہی اور دہلی وقف بورڈ کو ان جائیدادوں کے انتظام کے سبھی اختیارات سے برطرف کر دیا گیا تھا کیونکہ دہلی وقف بورڈ نے دو رکنی کمیٹی کے سامنے اپنا موقف نہیں رکھا تھا ۔ 123وقف جائیداد کو لے کر رِٹ پٹیشن نمبر 2686 / 2023دہلی وقف بورڈ بنام یونین آف انڈیا اور رٹ پٹیشن 2620 / 2023 دہلی ہائی کورٹ میں جناب جسٹس منوج کمار اوہری کی عدالت میں زیر غور ہے اور اگلی سماعت 6نومبر 2023ء ہے۔ ان ہی دو معاملات میں دہلی ہائی کورٹ نے 26اپریل2023ء کے آرڈر میں ایل این ڈی او کو معائنہ کرنے کی اجازت تو دی تھی مگر ساتھ ہی یہ ہدایت بھی دی تھی کہ ان وقف جائیدادوں روز مرہ کے انتظامات میں کم سے کم کسی طرح کی رخنہ اندازی نہ کی جائے۔
یہ ساری تفصیل بتاتے ہوئے ایڈوکیٹ مسرورالحسن صدیقی (صدر) مسلم سحر فائونڈیشن نے اپنے بیان میں کہا کہ ’’ یہ بات ہر سرکاری محکمے کو بخوبی عیاں ہے کہ 123وقف جائیداد کا معاملہ زیر التواع ہے اور ٹائٹل ڈسپیوٹ حکومت کی جانب سے کھڑا کیا گیا ہے جو کہ غیر واجب ہے پھر بھی حکومت جی 20کے نام سے دہلی کو خوبصورت بنانے کے لئے ان 123وقف جائیداد میں سے کئی مزارات رات کے اندھیرے میں شہید کر چکی ہے اس کڑی کو آگے بڑھاتے ہوئے دہلی ٹریفک پولیس نے سنہری باغ مسجد کا سروے کرانے کی بات کہی ہے تاکہ وہاں پر شاہ راہ عام کو چوڑا کیا جا سکے۔ ایڈوکیٹ صدیقی نے کہا کہ ’’ دو روز قبل ایسی اطلاع موصول ہوئی کہ مسجد تکیہ بَبّر شاہ نزد تِلک برج متھرا روڈ دہلی اور مدرسہ مسجد بابر روڈ بنگالی مارکیٹ پر جنوبی ریلوے کی طرف سے ایک نوٹس چسپا کیا گیا ہے جس میں 15دن کے اندر ریلوے کی زمین سے تمام تر انکروچمینٹ ہٹانے کو کہا گیا ہے نہیں تو ریلوے از خود اندہامی کارروائی انجام دینے پر مجبور ہوگا۔ اس نوٹس کا جواب ایڈوکیٹ مسرور الحسن صدیقی نے جنوبی ریلوے کے جنرل منیجر اور ڈیوزنل ریلوے منیجر کو آج ہی بھیج دیا ہے جس میں تمام تفصیل بتاتے ہوئے یہ بات ایاں کر دی ہے کہ مسجد تکیہ ببر شاہ اور مسجد مدرسہ بابر روڈ 123وقف جائیداد کی فہرست میں جس کا معاملہ زیر التواع ہے اور کسی بھی طرح کی اندہامی کارروائی دہلی ہائی کورٹ کی ہدایات و حکم کے خلاف ورزی ہوگی ۔ جس توہین عدالت کا مقدمہ قائم کیا جائے گا۔ ایڈوکیٹ صدیقی نے کہا کہ جنوبی کی جانب سے جو نوٹس چسپاں کیا گیا وہ بہت ہی اناڑی پن ، لاعلمی اور سرکاری ضوابط کی اندیکھی کرتے ہوئے تیار کیا گیا ہے۔ یہ نوٹس نہ تو ریلوے کے لیٹر پیڈ پر ہے اور نہ ہی اس جاری کرنے کی تاریخ ہے اور نہ ہی اس میں سرکاری مہر و سیل ہے۔ نوٹس جاری کرنے والے افسر کا نام ، عہدہ اور پتہ بھی نہیں ہے۔ یہاں تک کہ اس نوٹس میں اس بات کی بھی وضاحت نہیں کی گئی کہ یہ کس عمارت یا کس زمین سے متعلق ہے اس زمین کی کیا نوعیت اور پیمائش و رقبہ ہے جس کو ریلو ے ا نکروچمینٹ (قبضہ ) بتاکر ہٹانا چاہتی ہے۔
ایڈوکیٹ مسرورالحسن صدیقی (صدر) نے کہا کہ ریلوے حکام کو نوٹس بھیجنے کے ساتھ ساتھ اس نوٹس کی کاپی سی ای او دہلی وقف بورڈ کو بھی ارسال کر دی ہے کیونکہ وقف ایکٹ 1995کے مطابق دہلی کی تمام وقف جائیداد کا محافظ کیئر ٹیکر اور نگراں دہلی وقف بورڈ ہے جس پر ان جائیداد کے تحفظ و رکھ رکھائو کی ذمہ داری ہے۔ ایڈوکیٹ صدیقی نے گوش گزار کرایا کہ اسی طرح کا معاملہ ریلوے کی زمین خالی کرانے کے لئے ہلدوانی (اتراکھنڈ) سامنے آچکا ہے جہاں ریلوے حکام اپنی ہٹھ دھرمی دکھاتے ہوئے ایک بڑی آبادی پر قبضہ کرکے لاکھوں لوگوں کو بے گھر کرنا چاہتے تھے ۔ یہ معاملہ سپریم کورٹ پہنچا اور سپریم کورٹ غیر جانب دارانہ طور اپنا فیصلہ سنایا اور مظلوم لوگوں کو راحت دیتے ہوئے ریلوے کے غیر قانونی غیر فطری عمل پر روک لگا دی ۔ اسی کو مد نظر رکھتے ہوئے ہم عوام سے اپیل ہے کہ وہ جذبات میں نہ آئیں موقع پر پہنچ کر کسی بھی طرح فساد و شور شرابا نہ کریں ۔ یہ قانونی راستہ ہے اور قانون کے دائرے میں رہ کر ہی ہم اپنے حقوق کی لڑائی عدالت میں لڑیں گے۔