یہ داغ داغ اجالا
آج 14اگست ہے یوم آزادی منانے کی پوری تیاریاں ہو چکی ہیں۔اس بار ہماری سرکار نے’’ گھر گھر ترنگا‘‘کا نعرہ دیا ہے اور کل صبح ہمارے وزیر اعظم تاریخی عمارت لال قلعہ پر پرچم کشائی کرینگے اور پھر اپنے مخصوص انداز میں اپنا روایتی خطاب کرینگے ۔جس میں ان کی نظر اور نظریہ کے ہندوستان کی باتیں ہونگی ۔اس ہندوستان کی باتیں کہیں نہیں ہونگی جس ہندوستان کی بنیاد 15اگست 1947کو ڈالی گئی تھی ۔آج 14اگست ہے اور آج سے ٹھیک 77سال پہلے ہمارے ملک کو دو حصوں میں تقسیم کر کے انگریزوں نے ان دونوں ملکوں کی ملکیت ہندوستانیوں کے حوالے کر دی تھی جس ایک ملکیت کو ہمارے سیاسی رہنماؤں نے دو حصوں میں تقسیم کر لیا اور پھر شروع ہوا قتل و غارت گری کا وہ کھیل جسے تاریخ میں سب سے بڑے فساد کے نام سے اپنے صفحات میں درج کیا ۔لاکھوں انسانوں کے قتل کی بنیاد پر کھڑی آزادی کی وہ صبح جب آئی تھی اس سے قبل رات کے گیارہ بج کر پچاس منٹ پر پہلی پارلیمنٹری میٹنگ میں بحیثیت وزیر اعظم جواہر لعل نہرو نے خطاب کیا تھا اور پھر سردار پٹیل کے ساتھ لارڈ ماؤنٹ بیٹن کی رہائش گاہ پر ان کو رسمی طور پر یہ دعوت دینے گئے تھے کہ آپ ہمارے پہلے گورنر جنرل کا عہدہ قبول کریں ۔
وہ وقت نہ صرف جواہر لعل نہرو پر بلکہ پورے ملک پر بھاری تھا کیونکہ بٹوارے کی خبر جنگل کی آگ بن چکی تھی اور لاہور سے پنجاب تک اور آسام سے بنگال تک آگ کے شعلے اٹھ رہے تھے ۔ملک کا بٹوارہ چند ضدی لیڈروں کا سمجھوتہ تھا اور انگریزوں کی سازش ،جسے اس وقت صرف اور صرف مولانا آزاد سمجھ سکے تھے اور یہی وجہ تھی کہ انہوں نے آخری وقت تک بٹوارے کے اس مسودے پر دستخط نہیں کئے تھے ۔وہ بٹوارہ کس قدر غیر فطری تھا اس کا اندازہ ہمیں آج بھی ہوتا ہے ،کیونکہ آج بھی منی پور جل رہا ہے ،ہریانہ جو اسوقت پنجاب کا ہی حصہ تھا کرفیو کی زد میں ہے اور اس کے گاؤں گاؤں میں پنچایتوں کے ذریعہ مسلمانوں کے بائکاٹ کا اعلان کیا جا رہا ہے ۔
میں اس جشن آزادی کو اگر ہندوستانی مسلمان کی نظر سے دیکھوں تو یہ نظر آتا ہے کہ دو قومی نظریہ کی بات شروع کر کے گولوالکر نے بھارت کی پیٹھ میں جو خنجر اتارا تھا اسے نکالنے کی جگہ کانگریس اور مسلم لیگ کے لیڈروں نے اور گہرائی تک اتار دیا ۔کاش اس وقت یہ لوگ مولانا ابوالکلام کی بات پر کان دھرتے تو بھارت بھلے ہی دوچار سال بعد آزاد ہوتا لیکن اس خطے کے لوگوں کا یہ حشر نہ ہوتا ۔میں ایک مسلمان ہونے کی حیثیت سے یہ کہنے میں حق بجانب ہوں کہ مہاتما گاندھی نے بھی دو نیشن تھیوری کو قبول کر کے اپنے ذہنی دیوالیہ پن کا ثبوت دیا تھا ۔کاش اس وقت مہاتما گاندھی مولانا ابوالکلام سے کئے گئے اس وعدے پر قائم رہتے کہ’’ملک کا بٹوارہ میری لاش پر ہوگا‘‘ تو نہ اس وقت لاکھوں لوگ مارے جاتے اور نہ اس ملک میں مسلمانوں کا جینا دوبھر ہوتا ۔بٹوارے نے صرف ملک کے دو ٹکڑے نہ کئے صدیوں سے آزادی کی جنگ لڑ رہے ہندوستانیوں کی شہادت کا سودا بھی کر لیا ۔اس بٹوارے کے ذریعہ انگریزوں نے اپنا مفاد حاصل کیا جناح نے اپنا اور نہرو نے اپنا لیکن مسلمان کل بھی حیران و ششدر اپنی بقا کی جنگ لڑ رہے تھے اور آج بھی اپنے تحفظ کے لئے دردر بھٹک رہے ہیں ۔اب نہ تو جواہر لعل نہرو رہے نہ جناح نہ گاندھی ۔جنہوں نے آنے والی نسلوں کی قسمت کا فیصلہ کر دیا ۔لیکن اس فیصلہ کا خمیازہ ملک کے مسلمان بھگت رہے ہیں اور وہ اپنے ہی ملک میں غیر ملکی قرار دے کر مارے جا رہے ہیں ۔اقتدار سے دور کئے جا چکے ہیں اور اب ملک سے دور کر دینے کی دھمکی نے ان کی نیندیں چھین لی ہیں۔اور وہ بھی اس جرم کی سزا میں جو نہ انہوں نے کیا تھا اور نہ ان کے آبا و اجداد نے ۔یہ تاریخ کا کتنا بڑا المیہ ہے کہ دو قومی نظریہ کا بنیاد گولوالکر کے چیلے آج بھارت پر قابض ہیں ،اس نظریہ کو کھاد پانی دے کر بڑا کرنے والے جناح کے حواریوں کو پاکستان مل گیا لیکن بٹوارے کی مخالفت کرنے والے مولانا ابو الکلام آزاد کے حامیوں کا اس ملک میں جینا اس لئے دوبھر ہے کہ بٹوارے کے وقت وہ پاکستان کیوں نہیں گئے ۔جمہوری حکومت میں رہنا کیوں قبول کیا ۔پندرہ اگست کا دن آتا ہے چلا جاتا ہے لیکن ہندوستان کا مسلمان یہ سمجھ ہی نہیں پاتا کہ وہ کس آزادی کا جشن منائے ؟
اسے اپنے ملک میں آزاد و خود مختار شہری ہونے کا احساس کس سرکار نے دلایا ؟اسے کب وہ عزت اور مقام ملا جس کا وہ حقدار تھا۔لیکن ہر برس بھارت کا مسلمان صبر کے ساتھ سارے ملک کے شہریوں کے ساتھ یوم آزادی بھی مناتا ہے اور یوم جمہوریہ بھی ۔یہ جانتے ہوئے بھی کہ اب اس ملک میں جمہوریت کا دور دور تک نام و نشان نہیں ۔مجھے آج بار بار فیض کی نظم کا یہ ٹکڑا یاد آ رہا ہے ۔
یہ داغ داغ اجالا یہ شب گزیدہ سحر
تلاش جس کی تھی مجھکو یہ وہ سحر تو نہیں
(شعیب رضا فاطمی )