دہلی پولس کو اب خیال آرہا ہے کہ مرکز نظام الدین کی ملکیت اور تعمیری پیرامیٹر کے کاغذات کہاں ہیں۔ اس نے اس سلسلے میں ہائیکورٹ میں جاری مقدمہ میں ایک نئی عرضی داخل کرکے ہائیکورٹ سے درخواست کی ہے کہ وہ دہلی وقف بورڈ اور مسجد انتظامیہ کو اس پوری زمین کی ملکیت کے کاغذات اور تعمیر کے دوران لئے گئے این او سی دینے کی ہدایت جاری کرے۔ دہلی پولس نے مرکز نظام الدین میں عوام کے داخلہ پر پابندی کو چیلنج کرنے والے معاملہ میں ہائی کورٹ میں درخواست داخل کی ہے۔درخواست میں وقف بورڈ اور بنگلے والی مسجد کی انتظامیہ کو بستی نظام الدین میں مسجد کی اراضی کی ملکیت اور تعمیر کیلئے منظور شدہ بلڈنگ پلان سے متعلق تفصیلات پیش کرنے کی ہدایت کرنے کی درخواست کی گئی ہے۔ دہلی پولس مزید کئی چیزیں عمارت کے متعلق چاہئیں جس کیلئے عرضی لگائی ہے۔
پولس کمشنر روہت مینا کی طرف سے دی گئی عرضی میں عدالت سے یہ بھی مطالبہ کیا گیاہے کہ وہ دہلی وقف بورڈ اور مسجد انتظامیہ کو بنگلے والی مسجد کے سلسلے میں منظوری کے منصوبے کی کاپی پیش کرنے کی ہدایت کرے۔متبادل طور پردہلی میونسپل کارپوریشن کو پلاٹ نمبر 168A، بستی حضرت نظام الدین میں واقع جائیداد کیلئے منظور شدہ منصوبہ پیش کرنے کی ہدایت کی جا سکتی ہے۔پولس نے عدالت سے یہ بھی کہا ہے کہ وہ دہلی میونسپل کارپوریشن کی طرف سے عمارت کے منصوبے میں کسی بھی خلاف ورزی یا بنگلے والی مسجد میں کسی غیر قانونی تعمیر پر جاری کردہ نوٹس کو پیش کرنے کی ہدایت کرے۔ دہلی پولس عدالت سے یہ بھی جاننا چاہتی ہے کہ آیا نوٹس کے حوالے سے کوئی کارروائی کی گئی ہے۔درخواست میں ایک استدعا یہ بھی کی گئی ہے کہ آیا مرکز کی عمارت ساختی استحکام اور دیگر حفاظتی پیرامیٹرز کے لحاظ سے محفوظ ہے؟۔
یہ عرضی دہلی وقف بورڈ کی طرف سے 2021 میں دائر کی گئی ایک درخواست کے مقابلے میں آئی ہے، جس میںبورڈ نے مسجد چوڑی والی، مدرسہ کاشف العلوم اور منسلک ہاسٹل میں عوامی داخلہ پر عائد پابندیوں کو چیلنج کیا ہے۔ مرکز کی انتظامیہ کے ذریعہ یہ عرضی کووڈ کے دوران رہنما خطوط کی مبینہ خلاف ورزی کے الزام میں 2020 میں درج ایک کیس کے سلسلے میں ہے۔مدرسہ اور ہاسٹل اس وقت سے بند ہیں جب مارچ 2020 میں پولس کے ذریعہ کیمپس کو بند کردیا گیا تھا لیکن اس مقدمہ بازی کے دوران ہائی کورٹ نے عوام کو مسجد میں نماز ادا کرنے کی اجازت دیدی ہے۔اس سال مارچ میں عدالت نے رمضان کے مہینے میں مسجد کی پانچ منزلوں پر نماز ادا کرنے کی اجازت دی تھی۔مئی میں، مارچ 2020 کے بعد پہلی بار ہائی کورٹ نے مسجد انتظامیہ کو رمضان کے مہینے کے بعد عوام کو داخلے کی اجازت دینے کی اجازت دی تھی۔
جسٹس سنگھ نے تمام منزلوں پر نماز کی اجازت نہ دینے پر پولس کے استدلال پر سوال اٹھایا تھا۔ پولس نے قبل ازیں اپنے تحریری جواب میںعرضی کی برقراری کو چیلنج کیا تھا۔تازہ عرضی میں پولس نے کہا ہے کہ نہ تو وقف بورڈ اور نہ ہی مسجد انتظامیہ نے کوئی دستاویز پیش کیا ہے جس سے یہ ثابت ہو سکے کہ بستی حضرت نظام الدین میں واقع جائیداد ایک وقف جائیداد ہے۔پولس نے کہا ہے کہ صرف قانون کے تحت ہی بورڈ براہ راست انتظام کے کسی بھی حق کو حاصل کر سکتا ہے۔ پولس نے مزید کہا کہ اس نے دہلی وقف بورڈ سے یہ معلوم کرنے کیلئے دستاویزات مانگی ہیں کہ مسجد بنگلے والی کا’حقیقی مالک‘کون ہے، لیکن آج تک کوئی جواب نہیں ملا۔ سینئر ایڈوکیٹ سنجے گھوش اور دہلی وقف بورڈ کے سرکاری وکیل وجیہہ شفیق درخواست گزار کی نمائندگی کر رہے ہیں۔ سینئر ایڈوکیٹ ربیکا ایم جان اور ایڈوکیٹ فضیل احمد ایوبی عرضی گزارمسجد انتظامیہ کی نمائندگی کر رہے ہیں جبکہ ایڈوکیٹ رجت نائر دہلی پولس کی نمائندگی کر رہے ہیں۔