شعیب رضا فاطمی
ایودھیا میں رام مندر کی تقدیس کا شور بلند ہوتا چلا جا رہا ہے اور بظاہر ماحول سازی ایسی کی جا رہی ہے کہ جس طرح 2019میں پلوامہ کے بعد ماحول پوری طرح بدل گیا تھا، ٹھیک اسی طرح عام انتخاب سے قبل 22جنوری کے بعد ماحول بالکل بدل کر نریندر مودی کے حق میں چلا جائے گا ۔اور ایسا نہیں ہے کہ یہ سب محض قیاس آرائی ہے بلکہ ایسا ہوتا ہوا نظر آنے لگا ہے ۔کیونکہ انڈیا الائنس میں شامل پارٹی لیڈروں کی آوازوں میں بھی وہ دم خم نظر نہیں آرہا ہے اور رام مندر کی تقدیس کے دعوت ناموں کی تقسیم سے ان کے اندر بھگوان رام کے تئیں عقیدت کا جو سیلاب امنڈنا شروع ہوا ہے وہ کچھ اسی طرح کا ہے جیسا کمل ناتھ کے اندر مدھیہ پردیش میں ابل رہا تھا اور انہوں نے سوچا تھا کہ خود کو مذہب کے سائے میں لے جانے بھر سے بازی ان کے ہاتھ آجائیگی اور مدھیہ پردیش کی جنتا انہیں ہندوتوا کا سفیر سمجھ کر ووٹ ڈال دیگی ۔لیکن اس کا انجام جو ہوا وہ سب کے سامنے ہے ۔خود کانگریس ہائی کمان پچھلے ایک ہفتہ میں یہ فیصلہ کرنے سے قاصر ہے کہ وہ ایودھیا میں اس تقریب تقدیس میں شامل ہوگی یا نہیں ۔اور اس سے یہ اندازہ لگانے میں کوئی دقت نہیں ہو رہی ہے کہ کانگریس اعلی کمان جلد فیصلہ کر نے اس پر مضبوطی سے قائم رہنے کی صفت ابھی تک حاصل نہیں کر سکی ہے ۔جبکہ مسلسل مبصرین کانگریس کو اس بیماری کا علاج کرانے کا مشورہ دے رہے ہیں ۔کانگریس کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ نہرو ہوں یا اندرا ،ان کی شخصیت کا نمایاں پہلو یہی تھا کہ وہ فورا فیصلہ لیتے تھے اور پھر اس پر جم جایا کرتے تھے ۔
رام مندر کی تقریب تقدیس کو عام انتخاب کے کمپین کا نقطہ آغاز ہے اس میں کسی کو کوئی شک نہیں ۔خود ہندو سنتوں کے درمیان سے یہ آواز اٹھ رہی ہے کہ جب ابھی مندر مکمل ہی نہیں ہوا ہے تو پھر اس ادھورے مندر میں رام کی مورتی کی تقدیس کیوں کی جا رہی ہے ؟اس سے نقصان ہو سکتا ہے ۔لیکن ان مذہبی سنتوں کی سنتا کون ہے اور کیوں سنی جائے جب بی جے پی نے رام کے نام اور ان سے جڑی تمام چیزوں کو اپنے نام پیٹینٹ کرا رکھا ہے تو اس کا استعمال ہی نہیں استحصال بھی کرینگے اور کر رہے ہیں ۔لیکن ہندو سماج کی اکثریت خاموش ہے ۔
ابھی تو دیکھا یہ جا رہا ہے کہ خود انڈیا الائنس کے کنوینر نتیش کمار بھی تازہ صورت حال سے گڑبڑا گئے ہیں کیونکہ ان کے دوست کمیونسٹوں نے تو سب سے پہلے اس تقریب کا حصہ بننے سے انکار کر دیا ،آر جے ڈی کا رخ بھی ابھی صاف نہیں ہوا ہے لیکن جے ڈی یو کے کئی لیڈروں نے اعلان کیا ہے کہ اگر انہیں دعوت نامہ ملیگا تو وہ اس تقریب کا حصہ ضرور بنینگے ۔
ممکن ہے کہ اس تقریب میں باضابطہ بلائے جانے کا آر جے ڈی کو بھی انتظار ہو ۔کیونکہ اگر نتیش کمار کو پارٹی صدر کی حیثیت سے دعوت نامہ دیا جاتا ہے تب انہیں بھی بلایا جائے گا ۔ بی جے پی کے حکمت عملی سازوں کا خیال ہے کہ اس ماہ کے آخر میں وزیر اعظم نریندر مودی کے ذریعہ رام مندر کا افتتاح لوک سبھا انتخابات کے لئے پارٹی کی مہم کو طاقت دینے کے ساتھ ساتھ اپوزیشن ہندوستانی بلاک میں ایک دیوار بھی پیدا کر سکتا ہے۔معلوم ہوا ہے کہ بی جے پی قیادت نے افتتاحی تقریب سے سیاسی فائدہ حاصل کرنے کے لیے ایک وسیع منصوبہ تیار کیا ہے جس میں ہر لوک سبھا حلقہ میں "رام بھکتوں ” کی فوج تیار کرنا شامل ہے ۔کہا یہ جا رہا ہے کہ 22 جنوری کو تقدیس کی تقریب کے دوران اپوزیشن بلاک میں تقسیم تیز ہو سکتی ہے اور امید ہے کہ اس سے بھارتیہ جنتا پارٹی کو سیاسی فائدہ بھی ملے ۔مبصرین کا کہنا ہے کہ حزب اختلاف کے رہنما تقدیس کی تقریب میں شرکت کے حق میں اور خلاف اپنے بیانات کے ذریعے صرف رام مندر کو ایک مضبوط انتخابی پلیٹ فارم میں تبدیل کرنے میں مدد کر رہے ہیں۔کانگریس نے ابھی تک
ایودھیا تقریب میں شرکت کے بارے میں کوئی باضابطہ اعلان نہیں کیا ہے، ایسا لگتا ہے کہ وہ اس الجھن کا کوئی حل ابھی تک تلاش نہ کر سکی ہو لیکن گمان اغلب یہ ہے کہ وہ اس میں شرکت کرنے کا اعلان آخری دنوں میں کرے تاکہ میڈیا میں بات کا بتنگڑ بنانے کی کوشش نہ ہو
بی جے پی بہار میں برسراقتدار عظیم اتحاد میں پھوٹ ڈالنے کے لیے بے چین ہے۔ پارٹی کے اندرونی ذرائع کا ماننا ہے کہ رام مندر جے ڈی یو اور آر جے ڈی کے درمیان اختلافات کو ہوا دینے میں شکونی کا کردار ادا کر سکتا ہے۔
سب سے بڑی ریاست، اتر پردیش میں، پرنسپل اپوزیشن سماج وادی پارٹی بھی الجھی الجھی لگ رہی ہے ۔سماج وادی صدر اکھلیش یادو کی اہلیہ ڈمپل یادو نے حال ہی میں کہا ہے کہ اگر مدعو کیا گیا تو وہ 22 جنوری کو ایودھیا ضرور جائیں گی۔ اکھلیش نے بعد میں اس کی سیاسی وضاحت کرنے کی کوشش بھی کی اور کہا کہ
"جب بھی بھگوان چاہے گا اور بلائے گا جاؤں گا،”در اصل یہ ساری پارٹیاں اس لئے بھی الجھی ہوئی ہیں کہ ان سب کا مستقل ووٹ بینک یا یہ کہیں کہ اصلی ووٹ بینک مسلمان ہیں جو کسی بھی قیمت پر بی جے پی کے خلاف ہی جاتا ہے اور وہ اس میں کسی بھی قسم کی کمی برداشت کرنے کی حالت میں نہیں ہیں ۔اور اسی وجہ سے بی جے پی کی قیادت نے رام مندر کے مسئلے کا فائدہ اٹھانے کا منصوبہ بنایا ہے۔ اس پر بات چیت پارٹی عہدیداروں کی حالیہ میٹنگ کے دوران بھی ہوئی ہے جس میں مودی نے شرکت کی تھی ۔
اس منصوبے میں 22 جنوری کو رام مندر کے افتتاح کے بعد عام شہریوں کے لیے ایودھیا کے مفت دوروں کا اہتمام کرنا اور بعد میں ان کی واپسی پر اس مسئلے کو بڑھانے کے لیے استعمال کرنا بھی شامل ہے۔ پارٹی کے اندرونی ذرائع نے کہا کہ اس کا ہدف یہ یقینی بنانا ہے کہ لوک سبھا کے اہم حلقوں سے منتخب 2 کروڑ سے زیادہ لوگ انتخابات سے پہلے ایودھیا کا دورہ کریں۔
پارٹی کے ممبران پارلیمنٹ اور ایم ایل اے سے کہا گیا ہے کہ وہ اپنے علاقے کے ہر گاؤں سے ممتاز لوگوں کو ایودھیا کا دورہ کرنے کے لیے بلائیں۔
حالیہ اسمبلی انتخابات کی مہم کے دوران، وزیر داخلہ امت شاہ نے اپنی ریلیوں میں "رام للا کے درشن” کا وعدہ کیا تھا، ووٹروں سے بی جے پی کی حکومت لانے اور ایودھیا کا مفت سفر کرنے کی اپیل کی تھی۔
بی جے پی کے علاوہ، وسیع تر سنگھ پریوار کی دیگر تنظیموں نے بھی ایسے پروگراموں کی منصوبہ بندی کی ہے جو اس بات پر زور دیں گے کہ کس طرح ہندوؤں نے ایودھیا میں رام مندر دیکھنے کے لیے اپنی جانیں قربان کی ہیں، جس کا مقصد ہندو ووٹ بینک کو مضبوط کرنا ہے
ReplyForward |
شعیب رضا فاطمی
ایودھیا میں رام مندر کی تقدیس کا شور بلند ہوتا چلا جا رہا ہے اور بظاہر ماحول سازی ایسی کی جا رہی ہے کہ جس طرح 2019میں پلوامہ کے بعد ماحول پوری طرح بدل گیا تھا، ٹھیک اسی طرح عام انتخاب سے قبل 22جنوری کے بعد ماحول بالکل بدل کر نریندر مودی کے حق میں چلا جائے گا ۔اور ایسا نہیں ہے کہ یہ سب محض قیاس آرائی ہے بلکہ ایسا ہوتا ہوا نظر آنے لگا ہے ۔کیونکہ انڈیا الائنس میں شامل پارٹی لیڈروں کی آوازوں میں بھی وہ دم خم نظر نہیں آرہا ہے اور رام مندر کی تقدیس کے دعوت ناموں کی تقسیم سے ان کے اندر بھگوان رام کے تئیں عقیدت کا جو سیلاب امنڈنا شروع ہوا ہے وہ کچھ اسی طرح کا ہے جیسا کمل ناتھ کے اندر مدھیہ پردیش میں ابل رہا تھا اور انہوں نے سوچا تھا کہ خود کو مذہب کے سائے میں لے جانے بھر سے بازی ان کے ہاتھ آجائیگی اور مدھیہ پردیش کی جنتا انہیں ہندوتوا کا سفیر سمجھ کر ووٹ ڈال دیگی ۔لیکن اس کا انجام جو ہوا وہ سب کے سامنے ہے ۔خود کانگریس ہائی کمان پچھلے ایک ہفتہ میں یہ فیصلہ کرنے سے قاصر ہے کہ وہ ایودھیا میں اس تقریب تقدیس میں شامل ہوگی یا نہیں ۔اور اس سے یہ اندازہ لگانے میں کوئی دقت نہیں ہو رہی ہے کہ کانگریس اعلی کمان جلد فیصلہ کر نے اس پر مضبوطی سے قائم رہنے کی صفت ابھی تک حاصل نہیں کر سکی ہے ۔جبکہ مسلسل مبصرین کانگریس کو اس بیماری کا علاج کرانے کا مشورہ دے رہے ہیں ۔کانگریس کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ نہرو ہوں یا اندرا ،ان کی شخصیت کا نمایاں پہلو یہی تھا کہ وہ فورا فیصلہ لیتے تھے اور پھر اس پر جم جایا کرتے تھے ۔
رام مندر کی تقریب تقدیس کو عام انتخاب کے کمپین کا نقطہ آغاز ہے اس میں کسی کو کوئی شک نہیں ۔خود ہندو سنتوں کے درمیان سے یہ آواز اٹھ رہی ہے کہ جب ابھی مندر مکمل ہی نہیں ہوا ہے تو پھر اس ادھورے مندر میں رام کی مورتی کی تقدیس کیوں کی جا رہی ہے ؟اس سے نقصان ہو سکتا ہے ۔لیکن ان مذہبی سنتوں کی سنتا کون ہے اور کیوں سنی جائے جب بی جے پی نے رام کے نام اور ان سے جڑی تمام چیزوں کو اپنے نام پیٹینٹ کرا رکھا ہے تو اس کا استعمال ہی نہیں استحصال بھی کرینگے اور کر رہے ہیں ۔لیکن ہندو سماج کی اکثریت خاموش ہے ۔
ابھی تو دیکھا یہ جا رہا ہے کہ خود انڈیا الائنس کے کنوینر نتیش کمار بھی تازہ صورت حال سے گڑبڑا گئے ہیں کیونکہ ان کے دوست کمیونسٹوں نے تو سب سے پہلے اس تقریب کا حصہ بننے سے انکار کر دیا ،آر جے ڈی کا رخ بھی ابھی صاف نہیں ہوا ہے لیکن جے ڈی یو کے کئی لیڈروں نے اعلان کیا ہے کہ اگر انہیں دعوت نامہ ملیگا تو وہ اس تقریب کا حصہ ضرور بنینگے ۔
ممکن ہے کہ اس تقریب میں باضابطہ بلائے جانے کا آر جے ڈی کو بھی انتظار ہو ۔کیونکہ اگر نتیش کمار کو پارٹی صدر کی حیثیت سے دعوت نامہ دیا جاتا ہے تب انہیں بھی بلایا جائے گا ۔ بی جے پی کے حکمت عملی سازوں کا خیال ہے کہ اس ماہ کے آخر میں وزیر اعظم نریندر مودی کے ذریعہ رام مندر کا افتتاح لوک سبھا انتخابات کے لئے پارٹی کی مہم کو طاقت دینے کے ساتھ ساتھ اپوزیشن ہندوستانی بلاک میں ایک دیوار بھی پیدا کر سکتا ہے۔معلوم ہوا ہے کہ بی جے پی قیادت نے افتتاحی تقریب سے سیاسی فائدہ حاصل کرنے کے لیے ایک وسیع منصوبہ تیار کیا ہے جس میں ہر لوک سبھا حلقہ میں "رام بھکتوں ” کی فوج تیار کرنا شامل ہے ۔کہا یہ جا رہا ہے کہ 22 جنوری کو تقدیس کی تقریب کے دوران اپوزیشن بلاک میں تقسیم تیز ہو سکتی ہے اور امید ہے کہ اس سے بھارتیہ جنتا پارٹی کو سیاسی فائدہ بھی ملے ۔مبصرین کا کہنا ہے کہ حزب اختلاف کے رہنما تقدیس کی تقریب میں شرکت کے حق میں اور خلاف اپنے بیانات کے ذریعے صرف رام مندر کو ایک مضبوط انتخابی پلیٹ فارم میں تبدیل کرنے میں مدد کر رہے ہیں۔کانگریس نے ابھی تک
ایودھیا تقریب میں شرکت کے بارے میں کوئی باضابطہ اعلان نہیں کیا ہے، ایسا لگتا ہے کہ وہ اس الجھن کا کوئی حل ابھی تک تلاش نہ کر سکی ہو لیکن گمان اغلب یہ ہے کہ وہ اس میں شرکت کرنے کا اعلان آخری دنوں میں کرے تاکہ میڈیا میں بات کا بتنگڑ بنانے کی کوشش نہ ہو
بی جے پی بہار میں برسراقتدار عظیم اتحاد میں پھوٹ ڈالنے کے لیے بے چین ہے۔ پارٹی کے اندرونی ذرائع کا ماننا ہے کہ رام مندر جے ڈی یو اور آر جے ڈی کے درمیان اختلافات کو ہوا دینے میں شکونی کا کردار ادا کر سکتا ہے۔
سب سے بڑی ریاست، اتر پردیش میں، پرنسپل اپوزیشن سماج وادی پارٹی بھی الجھی الجھی لگ رہی ہے ۔سماج وادی صدر اکھلیش یادو کی اہلیہ ڈمپل یادو نے حال ہی میں کہا ہے کہ اگر مدعو کیا گیا تو وہ 22 جنوری کو ایودھیا ضرور جائیں گی۔ اکھلیش نے بعد میں اس کی سیاسی وضاحت کرنے کی کوشش بھی کی اور کہا کہ
"جب بھی بھگوان چاہے گا اور بلائے گا جاؤں گا،”در اصل یہ ساری پارٹیاں اس لئے بھی الجھی ہوئی ہیں کہ ان سب کا مستقل ووٹ بینک یا یہ کہیں کہ اصلی ووٹ بینک مسلمان ہیں جو کسی بھی قیمت پر بی جے پی کے خلاف ہی جاتا ہے اور وہ اس میں کسی بھی قسم کی کمی برداشت کرنے کی حالت میں نہیں ہیں ۔اور اسی وجہ سے بی جے پی کی قیادت نے رام مندر کے مسئلے کا فائدہ اٹھانے کا منصوبہ بنایا ہے۔ اس پر بات چیت پارٹی عہدیداروں کی حالیہ میٹنگ کے دوران بھی ہوئی ہے جس میں مودی نے شرکت کی تھی ۔
اس منصوبے میں 22 جنوری کو رام مندر کے افتتاح کے بعد عام شہریوں کے لیے ایودھیا کے مفت دوروں کا اہتمام کرنا اور بعد میں ان کی واپسی پر اس مسئلے کو بڑھانے کے لیے استعمال کرنا بھی شامل ہے۔ پارٹی کے اندرونی ذرائع نے کہا کہ اس کا ہدف یہ یقینی بنانا ہے کہ لوک سبھا کے اہم حلقوں سے منتخب 2 کروڑ سے زیادہ لوگ انتخابات سے پہلے ایودھیا کا دورہ کریں۔
پارٹی کے ممبران پارلیمنٹ اور ایم ایل اے سے کہا گیا ہے کہ وہ اپنے علاقے کے ہر گاؤں سے ممتاز لوگوں کو ایودھیا کا دورہ کرنے کے لیے بلائیں۔
حالیہ اسمبلی انتخابات کی مہم کے دوران، وزیر داخلہ امت شاہ نے اپنی ریلیوں میں "رام للا کے درشن” کا وعدہ کیا تھا، ووٹروں سے بی جے پی کی حکومت لانے اور ایودھیا کا مفت سفر کرنے کی اپیل کی تھی۔
بی جے پی کے علاوہ، وسیع تر سنگھ پریوار کی دیگر تنظیموں نے بھی ایسے پروگراموں کی منصوبہ بندی کی ہے جو اس بات پر زور دیں گے کہ کس طرح ہندوؤں نے ایودھیا میں رام مندر دیکھنے کے لیے اپنی جانیں قربان کی ہیں، جس کا مقصد ہندو ووٹ بینک کو مضبوط کرنا ہے
ReplyForward |