سیدنا عبد اللہ بن حذافہ ابن قیس بن عدی السہمی رضی اللہ عنہ کا شمار سابقین صحابہ میں ہوتا ہے،6؍ہجری میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اس صحابی کو ان کی دلیری اور جرأت کی بنا پر اسلام کا پیغام لیکر عظیم فارس کے پاس بھیجا تھا۔جب کسری کے دربار میں پہنچے تو درباریوں کے ذریعہ کسری کو مطلع کیا کہ وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا پیغام لیکر آئے ہیں اور کسری سے مل کر وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا مکتوب گرامی دینا چاہتے ہیں۔درباریوں نے مکتوب لیکر کسری کو پہنچانا چاہا مگر عبد اللہ بن حذافہ اس پر تیار نہ ہوئے اور کہا کہ رسول اللہ نے کسری کے ہاتھ میں دینے کا حکم دیا ہے اس لئے میں بلا واسطہ بادشاہ کے ہاتھ میں خط دینا چاہتا ہوں۔کسری نے اجازت دی،عبد اللہ رضی اللہ عنہ نے بادشاہ کے ہاتھ میں خط تھمایا۔اس نے مترجم کے ذریعہ اس کو پڑھوانا شروع کیا۔جیسے مترجم نے خط کا عنوان پڑھنا شروع کیا کہ’’ اللہ رحمن ورحیم کے نام سے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے شاہ ایران کسری کو سلامتی ہو اس پر جو ہدایت کی پیروی کرے…‘‘اتنا سننا تھا کہ کسری تلملا اٹھا۔جوش غضب میں مکتوب کو پھاڑ ڈالا۔ساتھ ہی اس نے اپنے درباریوں کو حکم دیا کہ عبد اللہ بن حذافہ کو دربار سے نکال باہر کیا جائے۔چنانچہ حضرت عبد اللہ نکال باہر کئے گئے۔انہیں اس بات کا احساس ہوا کہ ایسا نہ ہو کہ مارے غصہ کے کسری موت کا فرمان صادر کردے،وہ اس کے لئے ذہنی طور پر تیار بھی تھے۔مگر جب تک وہ غصہ سے باہر آتا سیدنا عبد اللہ اپنی سواری پر سوار ہوکر مدینہ پہنچ چکے تھے۔تلاش بسیار کے باوجود کسری کے فوجیوں کے ہاتھ نہ آئے۔
مدینہ پہنچ کر انہوں نے کسری کے تمام کرتوتوں سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو باخبر کیا۔مکتوب کے پھاڑے جانے کے بارے میں بھی بتلایا۔یہ سن کر آپ نے کہا کہ جس طرح اس نے خط کو پھاڑا ہے’’ اللہ اس کی سلطنت کو پارہ پارہ کردے‘‘۔اللہ کے رسول کی دعا قبول ہوئی اور چند دنوں کے اندر اس کے بیٹے شیرویہ نے فارس کے اس باد شاہ کو قتل کر ڈالا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشین گوئی کو سچ ہوتا دیکھ کر یمن کے سارے عیسائی اپنے حاکم باذان کے اسلام لانے کے ساتھ اسلام لے آئے۔
سیدنا عبد اللہ بن حذافہ رضی اللہ عنہ کی زندگی کا دوسرا مشہور واقعہ(جس کو امام بیہقی، ابن عساکر، امام ذہبی نے بھی سیر أعلام النبلاء میں ذکر کیا ہے) جو ان کو دوسرے صحابہ سے ممتاز اور نمایاں بناتا ہے عہد فاروقی کا ہے۔عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے ۱۳؍ہجری میں رومیوں سے جنگ کے لئے ایک فوج روانہ کیا تھا جس میں عبد اللہ بن حذافہ رضی اللہ عنہ بھی تھے اور اتفاق سے اس جنگ میں سیدنا عبد اللہ رومی سپاہیوں کے ہاتھوں قید کر لیے جاتے ہیں۔سپاہیوں نے ان کے بارے میں قیصر کو بتلایا۔قیصر نے مختلف طریقے سے عبد اللہ بن حذافہ رضی اللہ عنہ کے ایمان کا امتحان لیا۔بار بار نصرانیت اختیار کرنے کے لئے دباؤ بنایا مگر صحابی رسول کسی دباؤ میں آئے بغیر اپنے اسلام وایمان پر مضبوطی کے ساتھ قائم رہے۔
قیصر نے اپنی حکومت کا آدھا حصہ،مکمل حصہ،شریکِ حکومت کرنے کا بھی لالچ دی مگر عبد اللہ رضی اللہ عنہ نصرانیت اختیار کرنے سے انکار کردیا۔قیصر نے جب دیکھا کہ لالچ کار گر ثابت نہیں ہورہی ہے تو اس نے ڈرانے،دھمکانے اور موت کا خوف دلانے کی کوشش کی،ایک لکڑی سے باندھ کر ارد گرد تیروں کی بوچھاڑ کرائی تاکہ موت سے بچنے کے لئے اپنے دین سے پھر جائیں مگر عبد اللہ رضی اللہ اپنے دین پر جمے رہے۔اس کے بعد ابو حذافہ سہمی رضی اللہ عنہ کے سامنے بڑے ہانڈی میں پانی کو کھولایا گیا،دو قیدیوں کو اس کھولتے پانی میں ڈال دیا گیا،پانی اتنا گرم تھا کہ پانی میں ڈالتے دونوں کے جسم کے گوشت ہڈیوں سے الگ ہوگئے۔یہ پورا منظر ابو حذافہ کے سامنے تھا،اس دوران قیصر کی طرف سے بار بار دین اسلام سے پھرنے کا مطالبہ ہورہا تھا اور اس مطالبے کو قبول نہ کرنے کی صورت میں انہیں بھی کھولتے ہانڈی میں ڈالے جانے کی دھمکی دی جارہی تھی،جب ابو حذافہ کو اس ہانڈی کے قریب کیا گیا تو ان کی آنکھیں ڈبڈبا گئیں،سپاہیوں نے اس کی خبر فورا قیصر کو دی کہ باد شاہ سلامت قیدی رو رہا ہے شاید کہ وہ موت سے ڈر گیا ہے،نصرانیت کو گلے لگانے کو تیار ہے،ایک بار پھر ابو حذافہ قیصر کے حضور پیش کئے گئے۔بادشاہ نے پھر سے اپنا مدعی دہرایا کہ نصرانیت قبول کر لو بچ جاؤگے،مگر ابو حذافہ رضی اللہ عنہ نے سختی سے بادشاہ کے اس مدعا کو خارج کردیا،پھر بادشاہ نے کہا کہ رو کیوں رہے تھے؟ اس پر ابو حذافہ نے کہا: میں یہ سوچ رہا تھا کہ میرے پاس ایک جان ہے جو آج اللہ کی راہ میں قربان ہورہی ہے،اے کاش! میرے جسم میں موجود بالوں کی تعداد کے بقدر میرے پاس جان ہوتی تو تو سب وحدہ لا شریک کے دین کی سر بلندی کے لئے قربان کردیتا۔
قیصر جب ہر طرف سے اپنے آپ کو ناکام ہوتے دیکھا تو اس نے کہا کہ صرف میرے سر کو ایک بار بوسہ دے دو،تمہاری جان بخش دی جائے گی،کچھ دیر کے لئے عبد اللہ بن حذافہ نے سوچا اور پھر کہا: کیا تم سارے مسلمان قیدیوں کو چھوڑ دو گے؟اس نے کہا: ہاں۔پھر عبد اللہ رضی اللہ عنہ اٹھے اور قیصر کے سر پر ایک بوسہ دیا اور سارے مسلمان قیدیوں کو ساتھ لیکر دربار فاروقی میں پہنچے،پورا واقعہ سنایا،سیدنا عمر فاروق آپ اس بہادر صحابہ کی داستان سن کر بہت خوش ہوئے اور تاریخی جملہ کہا: عبد اللہ بن حذافہ اس عزت کے حق دار ہیں کہ سارے مسلمانان ان کے سر کو بوسہ دیں،اور سب سے پہلے میں ان کے سر کو بوسہ دیتا ہوں۔
ویسے تو حضرت عبد اللہ بن حذافہ بڑے سادہ اور مزاحیہ انسان تھے۔مگر دین وایمان کے معاملے میں تاریخ نے ان سے زیادہ بہادر کسی کو نہیں پایا۔روم وایران کے بادشاہ کو اپنی دلیری اور شعور وآگہی سے ناکوں چنے چبوا دیا۔آج بھی سیرت وتاریخ کی کتابوں میں ان کی بہادری کے بہت سے واقعات درج ہیں۔اللہ پاک ہم مسلمانوں کے دلوں میں بھی صحابہ کرام جیسا ایمان اور غیرت وحمیت پیدا کردے۔
قیصر نے اپنی حکومت کا آدھا حصہ،مکمل حصہ،شریکِ حکومت کرنے کا بھی لالچ دی مگر عبد اللہ رضی اللہ عنہ نصرانیت اختیار کرنے سے انکار کردیا۔قیصر نے جب دیکھا کہ لالچ کار گر ثابت نہیں ہورہی ہے تو اس نے ڈرانے،دھمکانے اور موت کا خوف دلانے کی کوشش کی،ایک لکڑی سے باندھ کر ارد گرد تیروں کی بوچھاڑ کرائی تاکہ موت سے بچنے کے لئے اپنے دین سے پھر جائیں مگر عبد اللہ رضی اللہ اپنے دین پر جمے رہے۔اس کے بعد ابو حذافہ سہمی رضی اللہ عنہ کے سامنے بڑے ہانڈی میں پانی کو کھولایا گیا،دو قیدیوں کو اس کھولتے پانی میں ڈال دیا گیا،پانی اتنا گرم تھا کہ پانی میں ڈالتے دونوں کے جسم کے گوشت ہڈیوں سے الگ ہوگئے۔یہ پورا منظر ابو حذافہ کے سامنے تھا،اس دوران قیصر کی طرف سے بار بار دین اسلام سے پھرنے کا مطالبہ ہورہا تھا اور اس مطالبے کو قبول نہ کرنے کی صورت میں انہیں بھی کھولتے ہانڈی میں ڈالے جانے کی دھمکی دی جارہی تھی،جب ابو حذافہ کو اس ہانڈی کے قریب کیا گیا تو ان کی آنکھیں ڈبڈبا گئیں،سپاہیوں نے اس کی خبر فورا قیصر کو دی کہ باد شاہ سلامت قیدی رو رہا ہے شاید کہ وہ موت سے ڈر گیا ہے،نصرانیت کو گلے لگانے کو تیار ہے،ایک بار پھر ابو حذافہ قیصر کے حضور پیش کئے گئے











