نئی دہلی پریس ریلیز،ہماراسماج:جماعت اسلامی ہند حلقہ دہلی کے امیر سلیم اللہ خاں نے کہا کہ ’’رمضان انسان کی تربیت کا مہینہ ہے ۔ ماہ صیام اپنی اصلاح اور تقویٰ کے حصول کا بہترین مہینہ ہے۔انہوں نے کہا کہ جماعت اسلامی کے تحت ہر مقام پر بھرپور استقبال رمضان کے پروگرام منعقد کئے جائیں گے جن سے مرکزی ،صوبائی اور ضلعی ذمہ داران کے علاوہ ممتاز علماء کرام ور دانشور خطاب کریں گے۔رمضان کے روزوں کی فضیلت اس سے بڑھ کر اور کیا ہو سکتی ہے کہ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جس نے ایمان و احتساب کے ساتھ رمضان کے روزے رکھے اس کے گذشتہ گناہ معاف کر دیے جائیں گے‘‘۔(بخاری، مسلم ،ابو داود)رمضان کے روزے انفرادی اور اجتماعی اصلاح اور فلاح کی ضمانت ہمیں صرف اس وقت دیتے ہیں جب قرآن کریم کے ساتھ ہمارا تعلق کتاب کو محض پڑھنے کی جگہ کتاب پر عمل کرنے والا ہو اور اس کتاب کے ذریعے تزکیہ نفس ،تزکیہ مال، تزکیہ اوقات اور تزکیہ معاشرتی رسومات کرنے والا ہو۔ رمضان کا حق ایک صاحب ایمان پر یہ ہے کہ اس کا استقبال محض مسجد کے میناروں پر چراغاں کر کے نہ کیا جائے بلکہ دل کی ویران بستی کو اس کے نور سے منور کیا جائے۔اس کی دعوت انقلاب کواپنے ذاتی معاملات اور معاشرہ میں اللہ کی حاکمیت کے قیام اور اللہ کے دین کو اپنی مجموعی شکل میں اللہ کی زمین پر قائم کرنے کی جدوجہد کا کام تیز سے تیز تر کیا جائے۔ اپنے گھروں میں اس ہدایت اور فرقان کی روشنی میں تعمیر سیرت و کردارکی جائے۔ یہی قوتِ ایمانی ہے کہ چار ماہ سے زیادہ عرصہ گزرنے پر بھی غزہ اور فلسطین کے مظلوم مسلمان اپنے سے دس گنا زیادہ بڑی آبادی اور دنیا کی چوتھی عسکری طاقت کے سامنے سینہ سپر ہو کر کھڑے ہیں اور انھوں نے نہ عربوں پر بھروسا کیا نہ ترکوں اوردیگر اسلامی ملکوں پر، بلکہ وہ صرف اللہ پر ایمان رکھتے ہیں۔یہی تقویٰ اور ایمان کا پیمانہ ہے ،یہی کامیابی کی ضمانت ہے۔ یہی اقامت دین کے لیے اپنے آپ کو منظم کرنا ہے۔ گویا قوت ایمانی جو رمضان کے روزہ سے حاصل ہوتی ہے اگر اسے صحیح طریقے سے دل و دماغ میں جاگز یں کر لیا جائے، تو پھر میدان بدر ہو یا حنین، جو ایک مرتبہ یہ کہتے ہیں کہ اللہ ہمارا رب ہے اور پھر اس پر استقامت اختیار کر لیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ آسمان سے فرشتے بھیج کر ان کی امداد فرماتے ہیں۔ اسلامی معاشرے کی تعمیر حاکمیت الٰہی اور اقامت دین کی صورتِ حال کا تعین کرنے کے لیے تربیت نفس، قلب، ذہن اور جسم کے لیے ایک ماہ کا نظام تربیت اور اس نظام تربیت سے گزرنے والوں کے لیے جانچنے کا پیمانہ ہے۔جس میں ایک جانب تزکیہ نفس و اخلاق اور دوسری جانب تقویٰ، قرب الٰہی اور اطاعت ِرب اور اطاعت ِ رسول کا پیمانہ اجتماعی کی شکل میں اہل ایمان کے لیے مقرر کیا گیا۔ رمضان کی فرضیت کو اس کے ممکنہ نتیجہ یعنی حصولِ تقویٰ سے وابستہ کر دیا گیا، کیونکہ تقویٰ کے بغیر نہ فرد، نہ معاشرہ اور نہ اقامت دین کا کوئی تصور ہو سکتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی اس تقویٰ، توکل علی اللہ اور اطاعت الٰہی اور رسول کو جاننے کا پیمانہ جہاد بھی فرض کر دیا گیا، تاکہ کسی بھی دور میں اقامت دین کی جدوجہد کے لوازمات ،مطلوبہ نظامِ تربیت اور تعمیر سیرت کے ساتھ اسے جانچنے کا پیمانہ بھی سامنے آجائے۔رمضان کے روزے نہ صرف اہل ایمان کی سیرت و کردار میں ظلم و استحصال کے خلاف عملی جدوجہد کرنے کی استطاعت پیدا کرتے ہیں ۔اسلام انسان کی فطرت سے انحراف نہیں کرتا۔ یہ جسم ونفس کی ضروریات کی نفی نہیں کرتا بلکہ انھیں ایک مصلح قوت میں تبدیل کر دیتا ہے۔ اس ماہ میں قرآن کریم کی شکل میں انسانوں کے لیے ہدایت کا مکمل نظام نازل کرنا ہے ،جو بذات خود شان کریمی کا ایک مظہر ہے کہ وہ جو مکمل طور پر عفو و درگزر سے اوراپنے بندوں سے محبت کرنے والا ہے۔اس نے اسی ماہ میں وہ کلامِ عزیز نازل کیا ، جو قیامت تک انسانیت کے لیے واحد راہِ نجات و کامیابی ہے۔اس ایک ماہ کی تربیت سے اسی وقت فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے جب اس مہینہ میں اس کی اصل روح اور مقصد کو سامنے رکھا جائے اور قرآن کریم سے وہ حقیقی تعلق قائم کیا جائے جو اقامت ِدین کی اولین شرط ہے:قرآن پر جتنا تفکر و تدبر کیا جائے گا، اتنا ہی ایک صاحب ِایمان سیرتِ پاک صلی اللہ علیہ وسلم سے وابستہ ہوگا۔ اس مرحلے سے گزرے بغیر اقامت ِدین کا فریضہ جیسا کہ اس کا حق ہے، ادا نہیں کیا جا سکتا۔ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین زندگی بھر کے تمام معاملات میں قرآن کریم اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنا رہنما بناتے تھے اور یہی ان کی اقامت دین کی کوششوں کی کامیابی کا سبب تھا۔قرآن کریم کا تیسرا اہم حق یہ ہے قرآن کو اللہ کے بندوں تک پہنچانے کی کوشش ہو۔یہ پورا مہینہ انفرادی اور اجتماعی تربیت کے ذریعے اہلِ ایمان کو اپنی سیرت و کردار میں وہ صفات پیدا کرنے کا موقع فراہم کرتا ہے،جن کے بغیر اقامت دین کا کام آسانی سے نہیں کیا جاسکتا۔ اقامت دین کی جدوجہد کے لیے نہ صرف انفرادی صالحیت ، تقویٰ اور احسان ضروری ہے، بلکہ اجتماعی طور پر ایک ایسی جماعت کا وجود میں آنا ضروری ہے جو اپنے فکر و عمل میں اللہ تعالیٰ کی حاکمیت کی فرماں بردار ہو۔