ملک میں2024کے عام پارلیمانی انتخابات کی تاریخوںکا اعلان ہوگیا ہے،برسراقتداراور حذب اختلاف کی پارٹیوں نے زورشورسے انتخابی مہم شروع کردی ہے،ملک کی تمام ریاستوں میں وہاں کی علاقائی سیاسی جماعتوںاور سیاست کی قومی اور اتحادی پارٹیوں نے اپنے اپنے امیدواروں کے ناموںکا انتخابی نشستوںپر اعلان کرنابھی شروع کردیا ہے،کچھ علاقائی پارٹیوںنے قومی پارٹیوں کے ساتھ انتخابی اتحاد کیا ہے اور کئی پارٹیاں اپنے دم پر انتخابی میدان میںاترگئی ہیں،ملک میں سیاسی پارٹیوںکے دو بڑے اتحاد ہیں ایک برسراقتدارپارٹی بی جے پی کا( این ڈی اے)نیشنل ڈیموکریٹک الائنس اور دوسرا کانگریس کی قیادت والا انڈیا الائنس( انڈین نیشنل ڈیولپمینٹل انکلیوسو الائنس) ہے،اس انتخاب میں کانگریس اور اس کی اتحادی پارٹیاں بی جے پی کو اقتدار سے ہٹانے کے لئے اور بی جے پی تیسری بار اقتدار میں واپسی کے لئے اپنی اتحادی پارٹیوں کو ساتھ لے کر عوام کے بیچ زورآزمائش کررہی ہیں،
ملک کی سبھی ریاستوں میں پارلیمانی انتخابات کے لئے انتخابی مہم جاری ہے،لیکن ہم یہاں ملک کی شمالی اور دہلی سے متصل ریاست ہریانہ کی سیاست پر بات کریںگے، گزشتہ 2019کے عام پارلیمانی انتخابات میں بی جے پی نے ریاست کی سبھی 10سیٹوںپرکامیابی حاصل کرلی تھی،اس جیت کو بی جے پی نے مودی کی جیت قراردیا تھا،کیونکہ یہ انتخاب وزیراعظم نریندر مودی کی قیادت میں لڑاگیا تھا، اس بار بی جے پی نے 400پارکا نعرہ دیا ہے یعنی 543میں سے 400سے زیادہ سیٹیں بی جے پی اکیلے جیت لے گی،یہ نعرہ ایسے وقت میں دیا جا رہا ہے،کہ جب ملک کے اندر بی جے پی کی کوئی لہر بھی نہیں ہے،بلکہ عوام مشکل دور سے گزررہی ہے،نوجوانوںکے پاس روزگار نہیں ہے مہنگائی سے لوگوںکا برا حال ہے،ملٹی نیشنل اور نیشنل کمپنیوںمیں ملازمین کی چھٹنی کی جا رہی ہے،سرکاری محکموں میں اسامیاں خالی پڑی ہیں،اگر سرکار ویکنسی نکالتی بھی ہے تو اس کا پرچہ لیک ہوجاتا ہے یا اسے لیک کرادیا جاتا ہے،جب ملک کی عوام اس بی جے پی سرکار کے کام کے طریقوںکے ہر پہلوسے پریشان ہے ،پھر ایسے میں بی جے پی 400پارکا دعویٰ کس بنیادپراور کیسے کررہی ہے؟دراصل یہ ملک کے رائے دہندگان کوپارٹی کے لئے مصنوعی لہر بناکر دکھائی جا رہی ہے ،تاکہ ان کے دماغ پر مودی لہر سوار رہے،اور وہ اس لہر میں بہہ کر بی جے پی کو ووٹ دے دیں،
ہریانہ میں اس مرتبہ بی جے پی کی حالت اچھی نہیں ہے،اسے 2024کے پارلیمانی سیٹوںپر جیتنا مشکل ہورہا ہے، یہی وجہ ہے کہ اسے اپنی سیٹوںکو بچانے کے لئے اپنے وزیراعلیٰ تک کو بدلنا پڑگیا ہے،ریاست میں بی جے پی کا گراف لگاتار گررہا ہے،اگر بی جے پی کا گراف ہائی ہوتا ،تو اسے دن کے دن اپنے وزیراعلی کو یو ںبدلنا نہ پڑتا،کسانوںپر لاٹھی چارج،آنسوںگیس کے گولے اور گولیوں نے وزیراعلی منوہر لال کی ساکھ کوریاست بھر میں کمزور کیا ہے،بی جے پی نے اپنی سیٹوںکو بچانے کے لئے ہریانہ میںبیک ورڈ کارڈبھی کھیلا ہے،منوہر لال پنجابی ہیں اور وہ سورن ذات سے آتے ہیں ،ہریانہ میں سورن ذات کا ووٹ شہری علاقوں میںکچھ حد تک بی جے پی کے حق میںجاتا رہا ہے،لیکن یہاں کا بیک ورڈ سماج جو گزشتہ انتخابات میں کافی حد تک بی جے پی کو چلا گیا تھا،اب کانگریس کی طرف لوٹ رہا تھا،ریاست میں بیک ورڈ ووٹ کانگریس کا روایتی ووٹ رہا ہے،اب یہ ووٹ بی جے پی سے ہٹ کر کانگریس میں آرہا تھا،بی جے پی نے اس بیک ورڈ ووٹ کو کانگریس میں جانے سے روکنے کے لئے سینی سماج سے نائب سنگھ سینی کو زیر اعلیٰ بنا یا ہے،سینی برادری ریاست ہریانہ کے پچھڑی ذات کے زمرہ میں آتی ہے،بی جے پی نے انتخابات سے عین وقت پہلے پچھڑی ذات سے وزیراعلیٰ بناکر پچھڑی ذات کے ووٹ کوکانگریس میں جانے سے روکنے کی کوشش کی ہے،بی جے پی اس پلان میں کتنی کامیاب ہوتی ہے،یہ انتخابی نتائج آنے کے بعد ہی پتہ چلے گا، بی جے پی نے ہریانہ میں اپنی ہار کو سامنے دیکھ برے وقت میں کام آنے والی اپنی اتحادی جن نائک جنتا پارٹی (جے جے پی)کو سرکار سے باہر کا راستہ دکھادیا ہے،پارٹی کا اس کارڈکو کھیلنے کے پیچھے جاٹوںکی ووٹ کو تقسیم کرنا ہے،حالانکہ جے جے پی ،بی جے پی کے ساتھ سرکار میں شامل ہوکر جاٹوںمیں اپنی پکڑکو ختم کرچکی ہے،جے جے پی کے رہنما دشینت چوٹالا سابق وزیراعلیٰ اوم پرکاش چوٹالا کے پوتے اور سابق نائب وزیراعظم چودھری دیوی لال کے پرپوتے ہیں،انھوںنے 2019میں انڈین نیشنل لوکدل سے الگ ہوکرجن نائک جنتا پارٹی بناکر ہریانہ اسمبلی کے انتخابات میں 10نشستوںپرکامیابی حاصل کرکے بی جے پی کو حمایت دے کر سرکار میں شمولیت اختیار کی تھی،
حالانکہ بی جے پی کو دی گئی حمایت سے انڈین نیشنل لوکدل کے رہنما چودھری اوم پرکاش چوٹالا اپنے بڑے بیٹے اجے چوٹالا اور پوتے دشینت چوٹالا سے خاصے ناراض بھی ہوئے تھے،اجے چوٹالا دشینت چوٹالا کے والد اور جے جے پی کے سرہرست بھی ہیں،
بی جے پی نے2014میں ہریانہ کے اقتدار میں آتے ہی اپنابانٹوںاور سیاست کرو کا کارڈکھیلنا شروع کردیا تھا،بی جے پی نے سب سے پہلے جاٹوں کو ہندؤں سے الگ کرنے کا کام کیا ،اس کے لئے بی جے پی نے جاٹوںکو ریزرویشن کے نام پر بھڑکایااور ہندؤںاور جاٹوںکو آمنے سامنے کردیا،ہریانہ میں کیونکہ جاٹوںکی سیاست مضبوط رہی ہے،اور اس سماج میںسے ہریانہ میں کئی وزیراعلیٰ بھی بنے ہیں یہی نہیں جاٹ سماج سے ملک کی مرکزی حکومت میں نائب وزیراعظم بھی بنا ہے،پہلے بی جے پی نے جاٹوں کو ہندؤں کا ووٹ نہ مل پائے اس کے لئے جاٹ ہندو کارڈ کھیلا ،اور پھر جاٹوں سے مسلمانوں کو دورکرنے کے لئے میوات خطہ کے نوح میں دنگے کراکر اس میں جاٹوں کو مسلمانوںسے لڑانے کی کوشش کی گئی،تاکہ مسلمان بھی ہندؤںکی طرح جاٹوں سے سیاسی طورپر الگ ہوجائیں،مگر وہ اپنے اس پلان میں اس طرح سے کامیاب نہیں ہوسکی جس طرح وہ ہندؤںکو جاٹوں سے الگ کرنے میں کامیاب ہو گئی تھی،2014میں اقتدار میں آنے کے بعد بی جے پی نے جو بانٹوں اور سیاست کرو کا کارڈ کھیلا تھا،اس کا اثر 2019کے عام پارلیمانی انتخابات میں سرچڑھ کر خوب بولا لیکن2019میں ہی اسمبلی کے انتخابات آتے آتے اس کا اثر لوگوں کے دماغ سے اترنے لگا اور اسے سرکار بنانے کے لئے جے جے پی کا سہارا لینا پڑا، ہریانہ میں بی جے پی کے پاس پانے کے لئے کچھ نہیں ہے ،لیکن کھونے کے لئے بہت کچھ ہے ،ادھر کانگریس اور دوسری پارٹیوں کے پاس پانے کے لئے سیٹیں ہیں مگر کھونے کے لئے کچھ نہیں ہے،کیونکہ ہریانہ میں پارلیمنٹ کی 10سیٹیں ہیں اور دس کی دس سیٹوں پر بی جے پی کا قبضہ ہے،اب بی جے پی کی حالت ہریانہ میں پہلے کے مقابلے کمزور ہوگئی ہے ،اور کانگریس کی مقبولیت میں اضافہ ہوا،2019کے عام پارلیمانی انتخابات میں ہریانہ کی دس کی دس سیٹوں پر بی جے پی کی کامیابی کوپارٹی نے مودی کی کامیابی بتایا تھا،لیکن اگر بی جے پی اس مرتبہ دس سیٹوں میں سے کچھ سیٹیں ہارجاتی ہے،تو کیا پارٹی ا سے مودی کی ہار مانے گی؟