یہ تلخ حقیقت ہے کہ گزشتہ دس برسوں سے تمام آئینی اور جمہوری اداروں سے ایسی حرکتیں سرزد ہوئی ہیں کہ عوام کا ان پر سے اعتماد ہی اٹھ گیا ہے سب سے زیادہ تشوشناک حالات رہے ہیں عدلیہ کے ضلع عدالتوں سے لے کر سانصاف پریم کورٹ تک سے ایسے فیصلہ آئے ہیں جنھیں انصاف کے خون کے علاوہ اور کچھ نہیں کہا جا سکتا ان فیصلوں کے فورن بعد ہی سپریم کورٹ کے ہی سبکدوش ججوں نے اور وہاں کے سینئر وکلاء انہیں ناانصافی قرار دیا تھا یہ فیصلے دینے والے جج صاحبان جن میں ضلع ججوں سے لے کر سپریم کورٹ تکّ کے جج صاحبان شامل ہیں ریٹائرمنٹ کے فورن بعد ہی کئی معاملات میں تو قانون بدل کر جس طرح تقرریاں دی گئیں اس سے صاف ہو گیا کہ ان ججوں نے حکومت کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے انصاف کا خون کیا تھا اور جو جج اسکے لئے تیار نہیں ہوے ان کو اپنی جان سے ہاتہ دھونا پڑا -جج لویا کا معاملہ تو عالمی شہرت حاصل کر چکا ہے جھارکھنڈ کے بھی ایک جج کو صبح کی سیر کے دوران کر سے کچل کر مار ڈالا گیا تھا – اس سے بھی زیادہ افسوسناک بات یہ ہے کہ بہت سے فیصلے ثواب (پن ) کمانے کے لئے کے گئے حالانکہ وہ جج صاحبان یہ بھول گئے تھے کہ اللہ ایشور بھگوان یا اجو بھی کہیں وہ ناانصافی اور ظلم برداشت نہیں کرتا خاص کر جب اس کے نامپر ظلم اور ناانصافی کی جائے تو وہ غضبناک سزا ضرور دیگا یہاں نہیں تو وہاں – عدلیہ آئین کی محافظ اور عوام کے آئینی حقوق یقینی بنانے کی ذمہ دار ہے مگر اکثر معاملات میں وہ اپنا یہ آئینی فرض اداکرنے میں ناکام رہی ہے -سپریم کورٹ کے ایک سبکدوش جج نے ریٹائرمنٹ کے بعد ایک موقر اخبارکو دئے گئے انٹرویو میں کہا تھا کہ ججوں سے اپوزیشن لیڈر کے کردار کی امید نہیں کرنی چاہئے بجا فرمایا تھا مائی لارڈ نے لیکن ججوں سے یس سر یس مین اور جی حضور یا ہونے کی بھی امید نہیں کی جا سکتی -گزشتہ دس برسوں کے عدالتوں کے فیصلوں کا اگر جائزہ لیا جائے اور ججوں کو ریٹائرمنٹ کے بعد جو تقرریاں دی گئیں تو ان پر ایک ضخیم کتاب تیار ہو سکتی ہے –
اس گھٹاٹوپ اندھیرے میں کچھ جج صاحبان اورکچھ فیصلے ایسے ضرو آئے ہیں جن سے انصاف کے تقاضے پورے ہوے ایک پرانا مقولہ ہے کہ انصاف صرف یہ نہیں ہے کہ انصاف کے گیا بلکہ انصاف کیا گیا عوام کو خود اس کا احساس ہو جانا چاہئے ایک طرف ایسے مائی لارڈ تھے جنہوں نےسرکار کے ا ایک چہیتے کارپوریٹ گھرانے کے قریب چھیالیس مقدموں میں ان ک حق میں فیصلے دے کر انھیں اربوں روپیہ کا فائدہ پہنچایا ظاہر ہے انکا یہ فائدہ سرکار یعنی عوام کا نقصان تھا ان جج صاحب کو ریٹائرمنٹ کے بعد قانون بدل کرایک عمدہ پوسٹنگ دی گئی دوسری طرف بلقیس بانو کے مجرموں کو دوبارہ جیل کی سلاخوں کے پیچھے بھیجنے والے اور الیکشن کمیشن کی تشکیل میں حکومت کی منمانی روکنے کا فیصلہ کرنے والے جج سبکدوشی کے بعد گوشہ گمنامی میں ہیں -سرکار کے پسندیدہ فیصلہ کرنے والے صرف سپریم کورٹ یا ہائی کورٹوں کے ججوں کو ہی سبکدوشی کے بعد منفعت بخش پوسٹنگ نہیں دی گئی ضلع ججوں کو بھی نوازہ گیا ہے
عدلیہ کے ایسے مشکوک رویہ کے ما حول میں جب ایسوسی ایشن فار ڈیموکریٹک ریفارمز نامی تنظیم نے الیکٹورل بانڈ کے معملہ پر عدالتی حارہ جوئی کی تو بہت کم لوگوں کو امید تھی کہ عدالت اس میں کوئی ایسا سخت رخ اپانیگی جو بر سر اقتدار پارٹی اور اس کی حکومت کے لئے پریشانی کا سبب بن جائے حکومت کی جانب سے سالسٹر جنرل سمیت د گج وکیلوں کی پوری ٹیم نے پورا زور اگا دیا کہ الیکٹورل بانڈ کا سچ سامنے نہ آ سکے ادھر پرشانت بھوشن اور کپل سبل جیسے وکلا نے بھی زور دار بحثکی اور عدالت کو جمہوریت میں شفافیت کے اصولوں کی اہمیت پر زور دیا اور آخر کار سپریم کورٹ کا وہ تاریخی فیصلہ آ گیا جس نے حکومت اور حکمران جماعت کی جڑیں ہلا کر رکھ دیں -جوحقائق سامنے آئے ہیں اور جس طرح سرکاری ایجنسیوں انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ سی بی آئ پولیس وغرہ کے غیر قانونی غور اخلاقی غیر جمہوری استعمال کر کے کھربوں روپیہ کا چندہ بٹورا گیا وہ ہمارے پورے جمہوری نظام پر ایک بدنما داغ بن گیا ہے -منتخب حکومتوں کو گرانے ممبران اسمبلی اور پارلیمنٹ کی وفاداریاں خریدنے مخالف پارٹیوں میں پھوٹ ڈلوانے میں تو ان ایجنسیوں کے استعمال کے الزام بہت پرانے ہیں لیکن چندہ کے نام پر دھن اگاہی ہفتہ وصولی رقم اینٹھنے (اکسٹورشن )کا یہ معاملہ اپنی نوعیت کا با لکل نیا معاملہ ہے دس سال کی حکومت میں پانچ ہزار کروڑ کا ریزرو فنڈ ملک کے ہر ضلع میں شاندار دفترکارکنوں پر لاکھوں روپیہ خرچ ایسے ہی تو نہں ہورہا ہے حکومتیں گرانے وفاداریاں خریدنے اور تشہیر پر بے تہاشہ رقم یونہی تو نہیں لٹائی جا رہی ہے -ظاہر سی بات ہے کہ حکمران جماعت کے مقابلہ اپوزیشن کے پاس نہ تو سرکاری طاقت ہے اور نہ ہی اتنا پیسہ پھر وہ انتخابی میدان میں ان کا مقابلہ کیسے کر سکتی ہے ؟ اسی لئے تو ہماری جمہوریت بتدریج چین روس شمالی کوریا کی طرح ایک پارٹی ایک لیڈر والے نظام کی جانب بڑھ رہی ہےSjh
میڈیا کو جمہوریت کا محافظ (واچ ڈاگ ) کہا جاتا ہے جمہوریت اگر چہ عدلیہ مقننہ اور انتظامیہ تین پایوں پر کھڑی ہوتی ہے لیکن میڈیا اسکا چوتھا پایا کہا جاتا ہے کیونکہ یہ ملک اور عوام کے مفاد میں حکومت سے غلط کاموں پر سوال پوچھتی ہے اچھے کاموں کو عوام تک پہنچاتی ہے نیز عوام اور سرکار کے درمیان پل کا کام کرتی ہے لیکن گزشتہ دس برسوں میں تمام جمہوری ا داروں کے ساتھ ساتھ جمہوریت کے اس ستون میں بھی گھن لگ گیا ہے حالت یہ ہو گئی ہے کہ جن لوگوں کی علی الصبح اخبار پہلی ضرورت ہوتا تھا ان میں سے ایک بڑے طبقے نے اخبار پڑھنا ہی بند کر دیا ہے خبریہ چینلوں کی حالت تو اور بھی خراب ہے وہ نہ صرف حکمران طبقہ کے گن گان میں لگے رہتے ہیں بلکہ ایک سوچے سمجھے منصوبہ کے تحت اقلیتوں کے خلاف نفرت پھیلانے میں بھی دن رات لگے رہتے ہیں جس کی وجہ سے متعدد بار انکی سرزنش بھی ہو چکی ہے -یہ وہی میڈیا ہے جو منموہن سنگھ کے دور میں میں ٹو جی کوئلہ جیسے نام نہاد گھپلوں پر چوبیسوں گھنٹے زہر اگلتا تھا حالانکہ یہ تمام الزامات عدالت میں خارج ہو گئے ہیں لیکن میڈیا نے اپنے منہ پر کالکھ پوت لی تھی وہی میڈیا اب الیکٹورل بانڈ کو لے کر ہوے خلاصہ پر منہ میں دہی جمائے ہوے ہے -جس ملک میں میڈیا ہز ماسٹرس وائس بن جائے اس ملک میں جمہوریت زیادہ دنوں زندہ نہیں رہ سکتی -وہ تو بھلا ہو سوشل میڈیا اور یو ٹیوب چینلوں کا کہ عوام حقیقت سےرو برو ہو جائے ہیں -مین اسٹریم میڈیا کے اسی رویہ کی وجہ سے عالمی رینکنگ میں ہندستانی میڈیا بہت نچلے پائیدان پر پہنچ چکی ہے –
سپریم کورٹ کے سامنے ابھی اوربھی بہت سے اہم معالات زیر غور ہیں ان میں الیکٹرانک ووٹنگ مشین ا ور الیکشن کمیشن کی تشکیل خاصی اہمیت کے حامل ہیں اگر ان مقدموں میں بھی سپریم کورٹ نے الیکٹورل بانڈ جیسا موقف اختیار کیا تو مودی حکومت کے لئے بہت سی مشکلات کھڑی ہو سکتی ہیں ان حالات میں وہ عوام کا دھیان بھٹکانےاور چناؤ جیتنے کے لئے پلوامہ گودھرا جیسآ کچھ کر گزریں تو کسی کو حیرت نہیں ہوگی ستیہ پال ملک صاحب تو یہ شک بہت پہلے ظاہر ہی کر چکے ہیں اس لئے عوام کو بھی بہت چوکس رہنے کی ضرورت ہے