سماجی کارکنوںکی تیار کردہ رپورٹ میں مسلم کیخلاف 192 معاملات، عیسائیوں کیخلاف 95 اور سکھوں کیخلاف7معاملے وقوع پذیر ہوئے
عامر سلیم خان
نئی دہلی:اقلیتوں کیخلاف سال 2021 میں نفرت پر مبنی کتنے جرائم ہوئے ، اس کی ایک رپورٹ آج سماجی کارکنوں اور طلبہ نے یہاں پریس کلب آف انڈیا میں پیش کی۔یہ رپورٹ بھارت میں اقلیتی طبقات کی سماجی و سیاسی حیثیت پیش کرتی ہے جو ایک سال کی مسلسل کوششوں کا نتیجہ ہے۔ پریس کلب آف انڈیا میں رپورٹ پیش کرتے ہوئے میڈیا کو سماجی کارکنوں نے بتایا کہ اولاً ہمارا ارادہ سال 2021 میں مسلم اقلیت پر ہونیوالے مظالم کی رپورٹ تیار کرنے کا تھا لیکن جب ہم میں سے کچھ لوگوں نے تحقیق اور میدانی سفر شروع کئے تو یہ احساس ہوا کہ محض ایک مذہبی اقلیت اشتعال انگیزی یا نفرت پر مبنی جرائم کی شکار نہیں ہوئی ہے بلکہ عیسائی اور سکھ طبقہ بھی شرپسند عناصر کے ذریعہ نفرت کی کھیتی کا شکار ہوا ہے۔ بنیادی طور پر یہ رپورٹ نوجوان طلبہ کی طرف سے لکھی گئی ہے جو ملک میں ایک بہتر اور مساوی مستقبل کی امید کے ساتھ سماج میں بڑھتی ہوئی مذہبی تقسیم سے حددرجہ بے چین ہیں۔
سماجی کارکنوں نے بتایا کہ 236صفحات پر مشتمل یہ رپورٹ صاف صاف بتارہی ہے کہ مذہبی اقلیتیں اشتعال انگیزی اور مذہبی نفرت کی شکار بنائی گئی ہیں ، جس میں انہیں نہ تو قانون نافذ کرنیوالی ایجنسیوں کا تعاون ملا اور نہ ہی میڈیا اداروں نے ان کی بات صحیح انداز میں پیش کرنے کی کوشش کی۔ انہوں نے بتایا کہ رپورٹ یہ بتاتی ہے کہ بھارت کے کچھ مقبول میڈیا چینلوں نے مذہبی اقلیتوں کی کس طرح منفی تصویر کشی کی ہے۔رپورٹ تیار کرنیوالے محققین نے بھرپور اعتراف کیا ہے کہ قانون نافذ کرنیوالے اداروں، پولیس انتظامیہ نے بہت سارے معاملات میں اقلیتوں کے ساتھ ظلم کو روا رکھتے ہوئے اکثریتی طبقے کے ساتھ جانبداری نبھائی۔ماہوار یہ بتایاگیا ہے کہ کس دوران میڈیا میں بھارت کی مذہبی اقلیتوں کے ساتھ جانبداری برتی گئی اور انہیں دیگر عوام اور اکثریتی عوام کے سامنے بطور ’ ویلن‘ پیش کیاگیا۔
رپورٹ بتاتی ہے کہ عیسائیوں، مسلمانوں اور سکھوں کیخلاف نفرت پر مبنی جرائم کے مجموعی 294 واقعات درج کئے گئے ہیں۔ ایک سال میںکل 294 میں سے 192 نفرت انگیز جرائم کے مقدمات مسلمانوں کیخلاف، 95 عیسائیوں کیخلاف اور7عدد سکھوں کیخلاف درج کئے گئے۔ قانون نافذ کرنیوالے اداروں نے کئی معاملات میں مجرموں کی مدد کرکے، جرائم کو نظر انداز کرکے اور بعض مواقع پر متاثرین کو حراست میں لے کر ان جرائم کو آگے بڑھانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ پولیس حکام کے تعاون کی کمی کی وجہ سے اکثر ایف ایل آرز بھی درج نہیں کئے گئے۔ اختیارات کی غیر چیک شدہ صوابدید کے ساتھ مل کر احتساب کا فقدان انصاف کا حصول مزید مشکل بنا دیتا ہے۔ رپورٹ میں مشاہدہ کیا گیا ہے کہ ایسی کوئی قانون سازی نہیں کی گئی جو مذہبی اقلیتوں کیخلاف نفرت انگیز جرائم کو قابل تعزیرجرم بنائے۔
رپورٹ کہتی ہے کہ ٹیلی ویژن کی خبروں میں عیسائیوں، مسلمانوں اور سکھوں کی منفی تصویر کشی کا ٹرائل کیاگیا، پرائم ٹائم شوز کی گہرائی سے جائزہ لینے سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ متعلقہ مسائل مذہبی اقلیتوں کیلئے شاید ہی نیوز رومز میں بحث کا موضوع بنے ہوں۔ سال 2021 بھارت میں مذہبی اقلیتوں کیلئے ایک ہنگامہ خیز سال تھا پھر بھی چینلوں کے نیوز رومز نے ان مسائل کو جگہ دینے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ مسلمانوں اور سکھوں سے متعلق مسائل پر بات کی گئی تاہم ان کی نمائندگی کافی کم تھی۔ تجزیہ سے یہ انکشاف بھی ہواکہ ہر تین شوز میں سے دو نے مذہبی اقلیتوں کیخلاف سازشی نظریات بھی نشر کئے ہیں۔چینلوں کے علاوہ اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ سا کے علاوہ انگریزی اور ہندی دونوں روزناموں میں مذہبی اقلیتوں کی منفی تصویر کشی بہت زیادہ تھی اور ہندی روزناموں نے تو انگریزی کو بہت پیچھے چھوڑ دیا تھا۔
دونوں زبانوں کے اخبارات کا الگ الگ تجزیہ کرنے سے معلوم ہوا کہ انگریزی روزناموں نے ہندی روزناموںکے مقابلے میںقدرے بہتر رول ادا کیا۔ عوام کو بتانے کی کوشش کی کہ یہ ساری مذہبی اقلیتیں ویلن ہیں۔خبروں میں اگرچہ سکھ اور عیسائیوں کی نمائندگی قدرے بہتر تھی لیکن مسلمانوں کی قطعی نہیں تھی۔رپورٹ بتاتی ہے کہ ملک میں ہندوتوا گروپوں کے ذریعہ عیسائی اداروں کو بار بار نشانہ بنایا جا رہا ہے، یونیورسٹیوں میں مسلم اور سکھ طلبہ کو امتیازات کا سامنار ہا ۔رپورٹ میں سال 2021 پر توجہ مرکوز کی گئی ہے۔ رپورٹ کا کام ’’دی کونسل آن مائنارٹی رائٹس ان انڈیا (سی ایم آر آئی) کے بینر تلے کامیابی سے کیا گیا۔ سی ایم آر آئی کا پختہ یقین ہے کہ بھارتی آئین رواداری کا سب سے بڑا نمونہ ہے ۔ رپورٹ کی اجرائی تقریب کے صدر سینئر ایڈوکیٹ کولن گونسالویس، دیگر مقررین میں ایڈوکیٹ کول پریت کور، طالبہ کارکن صفورا زرگر اوررپورٹ تیار کنندگان میں ندا پروین، شرجیل عثمانی اور تنظیم جنید شامل تھے۔