نئی دہلی پریس ریلیز،ہماراسماج:دہلی ہائی کورٹ میں قومی اسکول کیس میںدہلی سرکار نے درخواست لگائی تھی کہ قومی اسکول کی لٹی، پٹی بچی ہوئی زمین کو دہلی ایجوکیشن ڈائریکٹوریٹ کے حوالہ کر دیا جائے، جس میں وہ دسویں جماعت تک کا سروودے اسکول بنائے گی۔ حالانکہ قومی اسکول کی بازیابی کی کاوش پٹیشنز فیروز بخت کسی سال سے کر رہے ہیں مگر حزب مخالف پارٹی اُنہیں کبھی بھی کوئی اطلاع نہیں دیتی اور بادہ بادہ اسکول کو ختم کرنے کی ترکیبیں کی جاتی رہی ہیں، جس میں سب سے سنگین معاملہ اُردو میڈیم قومی سینئر سیکنڈری اسکول کو ختم کر کے اُسکی جگہ سروودے اسکول بنانے کئی پیٹیشن داخل کی گئ ہے، دہلی ایجوکیشن ڈائریکٹوریٹ کی ڈائریکٹر محترمہ راجکماری کی جانب سے، کو سراسر پرلے درجے کی نا انصافی ہے، جس کے خلاف بخت نے دہلی سرکار کو خوب کھری کھوٹی سنائی۔ جسٹس سنجیو سچديوا نے بخت سے کہا کہ اگر اُنہیں دہلی سرکار کے اس فیصلہ سے اتفاق نہیں ہے تو وایفیڈیوٹ دیں، جس کے لئے جسٹس صاحب کا شکریہ ادا کیا گیا اور اُن دے اجازت لی گئی کہ جن باتوں کا ذکر وہ ایفیڈیوٹ میں کریں گے، اُن کو وہ کورٹ کے سامنے بیان کرنا چاہتے ہیں۔ سب سے پہلے فیروز صاحب نے کورٹ کو بتایا کہ دہلی سرکار، ایل جی اور ایم سی ڈ ی نے سازش کر کے 2018 میں محترمہ جسٹس گیتا متل کے ذریعہ اسکول کو اُنکی پیٹیشن کے اعوذ دی گئ 4000 میٹر زمین میں سے اُنہیں بتائے بغیر 2400 میٹر زمین پارکنگ کے لئے دے دی۔ در اصل یہ حرکت دن دہاڑے ڈاکہ ڈالنے جیسی ہی تھی!جب جسٹس سنجیو صاحب نے کہا کہ پُرانا فیصلہ کہ پُرانا فیصلہ تو کمپرو مائز ہو چُکا ہے اور اب 4000میٹر زمین واپس نہیں ہوگی اور آپ بچی ہوئی 1600 گز کو ہی محفوظ کرنے کی کوشش کریں تو اُس پر جج صاحب سے بھی فیروز بخت نے چٹکی لئے ڈالی۔ اُنہوں نے جسٹس سنجیو سچد یوا سے کہا، ” سر آپ تو دہلی پبلک اسکول اور شری رام کالج آف کامرس سے اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں، ذرا ان غریب اُردو میڈیم کے پچھڑے بچّوں کے لئے بھی اسٹیٹ آف دی آرٹ اور ڈیزائنر اسکول بھی بنوا دیں! اس بات پر مسکراتے ہوئے جسٹس صاحب مسٹر بخت سے بولے، بہت خوب! آپ جج کے بارے میں پڑھ کر آئے ہیں!”فیروز بخت احمد نے دہلی سرکار پر الزام لگایا کہ مسلمانوں کے تئیں اُنکا دوغلا سلوک ہے۔ جب ووٹ لینے کا وقت آتا ہے تو کیجریوال سرکار اُنکی خوشامد کرتی ہے اور جب اُن کے بچّوں کی تعلیم کی بات ہوتی ہے تو وہ قومی اسکول کو ختم کر کے اُسکے بچّوں کو فتحپوری و دیگر اسکولوں میں بھیجنا چاہئے رہے ہیں اور جب اُنکی تعلیم کو فروغ دینا ہے تو دور دور بھیج رہے ہیں۔ یہ بچّے باڈہ ہندو راؤ اور سرائے خلیل سے اتنی دور کیسے جائینگے اور اسکول میں ایک ہزار بچّے ہیں، جن کو ایڈجسٹ کرنا نا ممکنات میں سے ہے۔اخیر میں ہمارے نمائندے کو فیروز بخت نے بتایا کہ قومی اسکول کے قضیہ میں سب سے بڑا قصور مسلم قوم کا ہے کہ جب اُنہوں نے، اطیب صدیقی و طیبہ صدیقی نے شیر کے منہ سے چار ہزار میٹر زمین شہر کی اہم جگہ پر دلا دی تو اُسے اسکول منیجمنٹ اور ملّت نے بے قدری میں کیوں پڑے رہنے دیا! دلّی سرکار کی تو پہلے سے ہی سانپ کی سے کنڈلی لگائے بیٹھی تھی اور موقعہ ملتے ہی زہریلے پھن سے وار کر دیا۔ اس پر بخت نے شاعر ماجد دیوبندی کہ ایک شعر جڑ دیا: یاروں کے دانت بڑے زہریلے ہیں،ہمیں بھی سانپوں کا منتر آتا ہے!