کالعدم تنظیموں کو پریس کانفرنس یاپروگرام کیلئے کلب میں جگہ فراہمی کا الزام، کلب نے ’ فیک اور جعلی نیوز‘ قرار دیا“
عامر سلیم خان
نئی دہلی سماج نیوز سروس:پریس کلب آف انڈیا (پی سی آئی) انٹیلی جنس بیوروکی جانچ کے دائرہ میں ہے۔ پریس کلب پر تشدد پسندوں اور ممنوعہ تنظیموں کو پریس کانفرنسوں اوردیگر تقریبات کے انعقاد میں جگہ فراہمی کیلئے تعاون کرنے میں مبینہ کردار کاالزام ہے۔ آئی بی ایجنسی اس سلسلے میں جانچ کررہی ہے۔ انٹیلی جنس بیوروکے ذرائع کے مطابق پاپولر فرنٹ آف انڈیا (پی ایف آئی) کے رکن صدیق کپن بھی پی سی آئی کے رکن تھے اور کلب میں پریس کانفرنس منعقد کرنے میں وہ اپنے ساتھیوں کی مدد کرتے تھے۔بتادیں کہ صحافی کپن کو 5 اکتوبر 2020 کو اتر پردیش کے ہاتھرس میں فرقہ وارانہ فسادات بھڑکانے کے الزام میںانسداد غیر قانونی سرگرمیاں ایکٹ (یواے پی اے ) کی مختلف دفعات کے تحت گرفتار کیا گیا تھا۔تب سے انہیںمتعدد عدالتوں سے ضمانت جیسی کوئی راحت نہیں ملی ہے۔ حالانکہ دوسری طرف پریس کلب آف انڈیا منتظمہ کمیٹی کے ذرائع کی مانیں تو یہ بالکل ’ فیک اور جعلی نیوز‘ ہے۔
ذرائع کے مطابق انٹیلی جنس بیورو نے حال ہی میںپریس کلب آف انڈیاکے دفتر میںاپنی ایک ٹیم بھیجی تھی ۔ اس دوران کلب کے اہلکاروں اور دیگر ذمہ داروںسے پوچھ تاچھ کی گئی تھی تاکہ پی ایف آئی اور دیگر کالعدم تنظیموں کی طرف سے منعقد کی جانےوالی پریس کانفرنسوں کے بارے میں معلومات حاصل کی جا سکیں۔ آئی بی حکام گزشتہ دو سالوں میں پی سی آئی میں ہونے والی پریس کانفرنسوں کے بارے میں معلومات اکٹھا کر رہے ہیں جن کا اہتمام انتہائی بائیں بازو، اسلام پسند گروپوں اور کالعدم تنظیموں نے کیا تھا۔ معلومات کے مطابق8 اکتوبر2022 کو پی سی آئی میں ایک پریس کانفرنس (پی سی )کا اہتمام کیا گیا تھا۔ اگرچہ یہ پی سی مبینہ طور پر آل انڈیا اسٹوڈنٹس ایسوسی ایشن (اے آئی ایس اے) اور کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (مارکسسٹ-لینن) لبریشن کی طرف سے منعقد کی گئی تھی، مگر آئی بی کا خیال ہے کہ دراصل پی ایف آئی کی ایک ونگ ’کیمپس فرنٹ آف انڈیا‘نے اس پریس کانفرنس کااہتمام کیا تھا۔
مذکورہ پریس کانفرنس میں مقررین اور شرکاءنے یو اے پی اے قانون کو منسوخ کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔ دہلی فسادات2020 کے ملزم خالد سیفی کی بیوی نرگس، صحافیہ نیہا دکشٹ، ڈی یو ٹیچر نندنی سندر، نندیتا نارائن، جینی روینا پی، آر جے ڈی ایم پی منوج جھا، سی پی آئی (ایم ایل) جنرل سکریٹری دیپانکر بھٹاچاریہ اور اے آئی ایس اے دہلی سکریٹری نیہا بورا اس پریس کانفرنس میں موجود تھے۔آئی بی ذرائع نے مزید دعویٰ کیاہے کہ چونکہ اب پی ایف آئی پر پابندی عائد کردی گئی اور وہ ایک ممنوعہ تنظیم ہے، اس لئے وہ مختلف کلبوںمیں مبینہ طور پر دیگر تنظیموں کے بھیس میں میٹنگیں کررہی ہے۔اس طرح پریس کلب آف انڈیا بھی اب سرکاری ایجنسیوں کی جانچ کے دائرے میں ہے اور الزام عائد کیا گیا ہے کہ ممنوعہ تنظیموں اور تشدد پسند افراد کو پریس کلب آف انڈیا میں پریس کانفرنس کے اہتمام میں کلب کا مبینہ کردار ہے ۔
ادھر پریس کلب آف انڈیا کے ذرائع کی مانیں تو یہ خبر پوری طرح ’ فیک اور جعلی نیوز ‘ ہے۔ اس خبر میں کوئی سچائی نہیں ہے۔ کلب کے ایک سینئر ذمہ دار نے بتایا کہ پریس کلب میں انتہائی جانچ کے بعد کوئی پروگرام یا پریس کانفرنس کرنے کی اجازت دی جاتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ کسی مشکوک یا حکومت کو مطلوب شخص کی طرف سے یہاں کوئی پریس کانفرنس نہیں کی گئی ہے۔ کلب اس معاملہ میں پوری طرح محتاط رہتا ہے اور تحقیق کے بعد ہی جگہ فراہمی کا کوئی فیصلہ کیا جاتا ہے ۔ اگر ایجنسی کو لگتا ہے کہ یہاں ایسے مشکوک لوگوں کی پریس کانفرنس یا کوئی تقریب منعقد ہوئی ہے تو ثبوت اور شواہد پیش کرنا چاہئے۔ پریس کلب آف انڈیا نے کسی ایسے فرد کو پریس کانفرنس کیلئے جگہ مہیا نہیں کرائی ہے جو حکومت کی نظر مشتبہ ہو۔ ہمیں اس خبر میں کوئی سچائی معلوم نہیں ہوتی۔ یہ خبر پریس کلب آف انڈیا پر بے جا الزام کو جگہ دیتی ہے۔