کارپوریشن
انتخابات 2022عامر سلیم خان
نئی دہلی ،سماج نیوز سروس:کارپوریشن انتخابات کی گہماگہمی یوں تو پوری دہلی میں زوروں پر ہے لیکن فصیل بند شہر یعنی پرانی دہلی میں انتخابی سرگرمیاں سرچڑھ کے بول رہی ہیں۔ حالانکہ امیدواروں کی نیندیں اڑی ہوئی ہیں، لیکن عوام انتخاب کو ایک جشن کے طو رپر لے رہے ہیں۔ یہاں پارٹی کے بجائے شخصیت اور اس کے کرداراو رعمل پر ووٹ ملتے ہیں۔ چاندنی محل وارڈمیں موجودہ ’آپ ‘ ایم ایل اے شعیب اقبال کے صاحبزادے آل محمد اقبال کا کردار جادوئی بتایا جارہا ہے۔ وہ کبھی ہارے نہیں اور شکست ان کے قریب سے ہوکر نہیں گزری۔ یہی حال سیتارام بازار میں محمود ضیاءکی کوششوں سے لڑرہی کانگریس کی امیدوارسیماطاہرہ کا بھی رہا ہے۔ محمود ضیاءشور شرابہ سے زیادہ سنجیدہ انتخابی مہم چلاتے ہیں اور کارنر میٹنگوں پر توجہ مرکوز کرتے ہیں۔ محمود ضیاءکی شخصیت لوگوں میں خوب جانی پہچانی ہے اور سیما طاہرہ اپنے کردار میں انتہائی صاف گو مانی جاتی ہیں۔مذکورہ دونوں امیدواروں کی مقبولیت کا راز ان وارڈوں کے ووٹرز خوب جانتے ہیں۔
پرانی دہلی والے انتخابی دنوں میںبہت محتاط ہوجاتے ہیں۔ وہ اپنے امیدواروں کے انتخاب میں بہت جانچ پرکھ کے قدم بڑھاتے ہیں۔ پرانی دہلی کی سیاسی آب وہوا میںیہ بات رچی بسی ہے کہ یہاں ووٹرز پارٹی کے بجائے امیدواروں کی شخصیت پر نظر رکھتے ہےں۔کیوں نہ ہو وہ جوپرانی دہلی والے ٹھہرے جوخود کو بادشاہوں اور راجاو¿ں کی دہلی کے باشندے بتاتے ہیں اور تاریخ کو اپنے سینے میں سمیٹے رکھتے ہیں۔ چاندنی محل وارڈکے امیدوار آل محمداقبال حالانکہ اپنے کردار سے جانے جاتے ہیں، تاہم اس الیکشن میں یہ بھی دیکھا جارہا ہے کہ ان کے والد محترم حاجی شعیب اقبال جو علاقہ کے ممبر اسمبلی بھی ہیں، انتخابی تشہیر میں اس بار کافی سرگرم دکھائی دے رہے ہیں۔ وہ گزشتہ انتخابات میں انتخابی مہموں کیلئے آخری دنوں میں نکلا کرتے تھے مگر اس بار ان میں بڑی تبدیلی دیکھی جارہی ہے ، جس کا فائدہ ان کے سارے‘آپ‘ امیدواروں کو ملنا یقینی ہے۔ آل محمد اقبال کی پہچان جہاں والد سے ہے وہیں وہ خود بھی ایک فعال نوجوان لیڈر ہیں۔
اگربات بازار سیتارام کی کانگریس امیدوار سیما طاہرہ کی کی جائے تو وہ یہاں کی محبوب ترین خاتون لیڈر ہیں اور لوگوں کا دل اپنے کاموں کی بنیاد پر جیتتی رہی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ محمود ضیاءکی قیادت میں انہوںنے جب سے انتخابی لڑائی لڑنی شروع کی ہے کبھی ہاری نہیں۔ پرانی دہلی کی ایک خاص بات یہ بھی ہے کہ یہاں کے کانگریسی اپنے امیدواروں کوزیادہ توجہ نہیں دیتے لیکن محمود ضیاءاور سیما طاہرہ کے معاملے میں ایسا کبھی نہیں ہوا۔ یا شاید اس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ یہاں کے کانگریسی بڑے انتخاب یعنی اسمبلی میں اپنے امیدوار پر توجہ نہیںدیتے، لیکن کارپوریشن انتخاب میںوہ سیماطاہرہ کیلئے ہمیشہ کھڑے رہتے ہیں کیونکہ محمود ضیاءبھی اپنے رائے دہندگان کا محض انتخابی دنوں میں نہیں بلکہ پانچ سال تک خیال رکھتے ہیں اور انہیں بنیاد ی سہولیات کی فراہمی میں دن رات ایک کردیتے ہیں۔پرانی دہلی کے ووٹرز کو اگر سمجھنا ہے تو وہاں جاکرانہیں قریب سے دیکھنا پڑے گا۔بہرحال اب دیکھنا یہ ہے کہ یہاں کے عوام اس بار بھی اپنی پرانی روایتوں کو برقرار رکھ پائینگے!