صادق شروانی
نئی دہلی ، سماج نیوز سروس:حکومت ہند کی جانب سے محکمہ آیوش جو حالیہ دنوں قائم کیا گیا ہےاس کا تصور حکیم عبدالحمید صاحب نے 1956 میں پیش کیا تھا اور اس وقت کی وزیر صحت راجکماری ادت کو ایک خط لکھا تھا جس میں کہا تھا کہ ہمیں آزاد ہوئے نو سال ہوگئے لیکن ابھی تک دیہی صحت کے بارے میں کچھ نہیں ہوپایا ہے ۔ اس کا واحد حل ہے کہ یونانی اور آیوروید کے ذریعے ہی صحت کا انتظام کیا جاسکتا ہے اور اس وقت سے ہمدرد دوائیں بناتا رہا۔ ان خیالات کا اظہار آل آنڈیا یونانی طبی کانفرنس کےسکریٹریجنرل ڈاکٹر خالد صدیقی نے کیا۔ حکیم عبدالحمید کی 25ویں یوم وفات کے موقع پر کیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ سی سی آر یو ایم کے پہلے صدر رہتے ہوئے حکیم عبدالحمید صاحب نے بہت کام کیا جیسے آج یونانی کے جتنے بھی طبی ادارے کام کر رہے ہیں جیسے اسٹیٹ کونسل ، اسٹیٹ ڈائریکٹریٹ، نیشنل انسٹی ٹیوٹ، سی سی یوآریم اور یونانی فارما کوپیا کمیٹی اور سی جی ایچ ایس وغیرہ یہ تمام ادارے یونانی طبی کانفرنس کی کوششوں سے حکیم صاحب نے کرائے۔ اس تقریب میں مختلف شعبہ جات سے وابستہ سرکردہ شخصیات نے شرکت کی اورحکیم عبدالحمید کے مشن کو مزیدتقویت دینے کے لیے ان کے جانشین کو مبارکبادی اور مستقبل کے لیے نیک خواہشات سے بھی نوازا۔تقریب کا آغاز مولانا مفتی عادل جمال کی تلاوت کلام پاک سے ہوا ۔ تاہم ہمدرد لیبارٹریس ’انڈیا‘کے سیلس ہیڈ میڈیسن ڈویژن محمد زبیر نے تمام مہمانان کا استقبال کیا اور حکیم عبدالحمید کے مقصد سے محفل شرکا ء کو روشنا س کراتے ہوئے بتایا کہ حکیم عبدالحمید نے ملک وقوم کی تعمیر میں جو خدمات انجام دی ہیں وہ قابل تعریف ہیں۔آ ج ہم سب جس شخصیت ( حکیم عبدالحمید)کو خراج عقیدت پیش کرنے کے مقصد سے جمع ہوئے ہیں،اس شخصیت کے لیے اپنے الفاظ سے انصاف کرنا میرے لیے مشکل امر ہے،ان کے لیے جتنا بھی کہا جائے وہ کم ہوگا۔حکیم صاحب کم عمری یعنی تیرہ سال کی عمر میں ہمدرد کی ذمہ داری ملی جس کو انہوں نے اپنی والدہ کی سرپرستی نہ صرف نبھایا بلکہ اس کو پروان بھی چڑھایا،آج ہماری ٹیم ہمدرد لیبارٹریس ’انڈیا‘ کے چیئرمین حکیم عبدالمجید ثانی کی سربراہی میں حکیم عبدالحمید کے مشن کو آگے بڑھانے کے لیے پر عزم ہے،ان کے مشن طبی ،تجارتی ،سماجی و تعلیمی اور فروغ ادب کے لیے مسلسل کام کررہے ہیں ۔ پروفیسر اشہر قدیر نے کہاکہ زندہ قو میں اپنے محسنین کو یاد رکھتی ہیں ،اسی فریضہ کی ادائیگی کے لیے آج ہم سب یہاں جمع ہوئے ہیں۔جو ہمار ے اور ہماری نئی نسل کے لیے نیک قدم ہے ۔حکیم عبدالحمید کا یہ قول ’میرے کام ہی میرے اقوال ہیں‘ مجھے سب سے زیادہ پسند ہیں۔ان کا یہ جملہ ان کی زندگی نہایت جامع تعبیر ہے ،اگر ہمیں حکیم عبدالحمید کو سچی خراج عقیدت پیش کرنی ہے تو ہمیں ان کی طرز زندگی اور عمل پر چل کر زندگی گزارنی چاہیے کیونکہ حکیم صاحب کی شخصیت وکردار عمل سے عبارت تھی ،شاید اسی لیے وہ اتنا کچھ کر سکے ۔پدم شری پروفیسر اختر الواسع نے کہاکہ آج ہم سب ایک عظیم شخصیت کو یاد کرنے کے لیے یہاں جمع ہوئے ہیں ،حکیم عبدالحمید نہ صرف جسمانی معالج تھے بلکہ وہ روحانی علاج کے بھی ماہر تھے ،ان کی حیثیت صرف ایک طبیب کی نہیں تھی بلکہ ایک صوفی کی بھی تھی۔حکیم عبدالحمید حکیم اجمل خاں کے بعد دوسری شخصیت تھے جنہوں نے طبی یونانی کے فروغ وترقی اور تحقیق میں اہم کردا ر ادا کیا جو ناقابل فراموش ہے۔نیشنل لاء یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر فیضان مصطفی نے حکیم عبدالحمید کی تعلیمی خدمات پر گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ وہ اپنی تجارت سے کمائی گئی ایک خطیررقم کو تعلیمی اداروں پر خرچ کرتے تھے،یہی وجہ ہے کہ آج جامعہ ہمدر د واحد ایسی پرائیویٹ یونیورسٹی ہے جس میں یونیورسٹی کے وائس چانسلر اور انتظامیہ کو وہ سبھی خدمات میسر ہیںہیں جو اب سرکاری یونیورسٹیوں میں کم ہوتی جارہی ہیں۔ایڈیٹر انقلاب نارتھ عبدالودود ساجد نےکہاکہ حکیم عبدالحمد ایک پیغمبرانہ مشن کے حامی تھے ،ان کے اندر تمام وہ اوصاف موجود تھے جو پیغمبر اپنے پیغمبران کے اندر دیکھنا چاہتا ہے۔راشٹریہ آیورویدودیا پیٹھ ،وزارت آیوش کے چیئرمین ڈاکٹر دویندر ترونا نے حکیم عبدالحمید کی طبی ،سماجی و تعلیمی خدمات کو یاد کیا اور کہاکہ ہم سب کو حکیم صاحب کے طرز عمل پر چلنا چاہیے تاکہ ہم بھی ملک اور قوم کی تعمیر میں اہم کردا ر ادا کرسکیں۔خالد صدیقی نے بھی حکیم عبدالحمید حیات و خدمات پر مختصر روشنی ڈالی ۔اس تقریب میںعارف محمد خان، خواجہ افتخار،ڈاکٹر شاہ عالم ،ڈاکٹر عقیل احمد،نور الھدٰی،ڈاکٹر شمیم احمد،سمیر فاروق،ڈاکٹر شاہ عالم، حکیم امام الدین ذکائی، ڈاکٹر حبیب اللہ، ڈاکٹر کوشف ذکائی، ڈاکٹر ادریس احمد، ڈاکٹر بھٹناگر، ڈاکٹر عشرت کفیل وغیر ہ کے علاوہ مختلف علوم و فنون سے وابستہ افراد موجود رہے ۔سیلس ہیڈ زبیر احمد نے پہلے ہمدرد کے مشن کے بارے میں تفصیل سے بتایا اور بعد میں شکریہ کی رسم بھی انہوں نے ادا کی۔