”جب تک اردو کے ساتھ سوتیلا رویہ رہے گا میں آواز بلند کرتا رہوں گا، سال2011 کی مردم شماری کے مطابق ملک کی 5 کروڑ آبادی اردو پڑھتی ، بولتی، سمجھتی او رلکھتی ہے اس لئے اتنی بڑی تعداد کو محروم نہیں کیا جاسکتا“کنور دانش علی ( ممبر پارلیمنٹ لوک سبھا، بہوجن سماج پارٹی)
عامر سلیم خان
نئی دہلی ، سماج نیوز سروس:سرکاری نیوز چینل ”دور درشن“ پر اردو نیوز بلیٹن کے ساتھ سوتیلا رویہ جاری ہے۔ مارچ 2020 میں کورونا کے بہانے اردو بلیٹن کی 10 سے 2 ہونے والی تعداد آج تک نہیں بڑھائی گئی جبکہ حالات معمول پر آئے ہوئے ایک عرصہ بیت چکا ہے۔ اس سلسلے میں ممبر پارلیمنٹ کنور دانش علی نے نہ صرف مرکزی وزیراطلاعات ونشریات انوراگ ٹھاکر کو خط لکھا بلکہ پارلیمنٹ میں بھی آواز بلند کی لیکن سرکار ٹس سے مس نہ ہوئی۔اب ایک بار پھر مسٹر کنور دانش علی نے آج مرکزی وزیر اطلاعات ونشریات کو خط لکھتے ہوئے یاد دلایا ہے کہ نہ تو آپ کی طرف سے میرے سابقہ خط کاصحیح جواب آیا اور نہ ہی اردو بلیٹن کی سابقہ تعداد دور درشن پربحال کی گئی۔انہوں نے مسٹر انوراگ ٹھاکر کو پہلا خط 7 اگست 2022 کو لکھاتھا، کہ جب کورونا کے بعد انگریزی اور ہندی بلیٹن کی تعداد بحال کردی گئی ہے تو دیش کے 5 کروڑ اردو داں طبقہ کاپسندیدہ نیوز پروگرام کیوں بحال نہیں کیا جارہا ہے؟۔
مسٹر کنوردانش علی نے آج دوبارہ مرکزی وزیر اطلاعات ونشریات انوراگ ٹھاکر کو خط لکھا کہ کورونا وباءکے دور میں دور درشن پر کم ہوئی اردو نیوز بلیٹن کی تعداد سب کچھ معمول پر آجانے کے بعد بھی نہیں بحال کی جارہی ہے جو اردو کے ساتھ سوتیلا رویہ ہے۔اردو داں طبقہ ایک طویل عرصہ سے اردو نیوز بلیٹن سے محروم کردیاگیا ہے اس لئے اس سلسلے میں مناسب قدم اٹھائیں۔ مسٹر کنور دانش علی نے ٹویٹر پر بھی لکھا اور دونوں خطوط بھی شیئر کئے ہیں۔ انہوں نے ٹویٹر پر لکھا ہے کہ ”انوراگ ٹھاکر جی! اردو اس ملک کی بیٹی ہے، کروڑوں لوگ اسے پسند کرتے ہیں لیکن دوردرشن اس کےساتھ سوتیلی ماں والا سلوک کر رہا ہے۔ کورونا کے دور میں اردو نیوز بلیٹن کی تعداد روزانہ 10 سے کم ہو کر صرف 2 رہ گئی، سب کچھ نارمل ہونے کے باوجود ابھی تک بحالی نہیں ہوئی۔مسٹر کنور دانش علی نے ہمارا سماج سے بات کرتے ہوئے کہا کہ بھارت کی ساری زبانیں مساوی حقوق کی حامل ہیں اور اردو بھی ان میں ایک ہے پھر سرکار کا رویہ سوتیلا کیوں ہے؟۔
بتاتے چلیں کہ تقریبا پونے تین سال سے دور درشن پر اردو نیوز بلیٹن محرومیت کاشکار ہے۔ اس کی وجہ سے اردو والوں نے ہر چہار جانب آواز بلند کی اور سرکار کو تحریر بھی دی گئی لیکن’سب کا ساتھ سب کاوکاس اور سب کاوشواس ‘ کا نعرہ لگانے والی حکومت کے کان پر جوںتک نہیں رینگی۔ اس سلسلے میں مسٹر کنور دانش علی اور اس وقت قومی اقلیتی کمیشن کے وائس چیئرمین عاطف رشید سمیت اردو اخبارات، اراکین پارلیمنٹ ، غالب انسٹی ٹیوٹ اردو اکادمی دہلی جیسے موقر اداروں نے بھی سرکار سے فریاد لگائی لیکن صدا بصحرا ثابت ہوئی۔ مارچ 2020 میں کورونا کی پہلی لہر شروع ہونے پر ساری زبانوں کے نیوز بلیٹن متاثر ہوئے تو اردو نیوز بلیٹن پر بھی اس کا اثرپڑا،سبھی زبانوں کے ساتھ اردو نیوز بلیٹن بھی 10 سے2کردیا گیا۔ اردو بلیٹن ڈی ڈی اردو اور ڈی ڈی نیوز پر دیئے جاتے تھے۔حالات معمول پر آنے کے بعد ساری زبانوں کے نیوز بلیٹن کی تعداد بحال کردی گئی لیکن اردو نیوز بلیٹن کی تعداد آج بھی 2 رکھی جارہی ہے۔
کئی تنظیموں اور اداروں نے سرکار کے اس رویے کیخلاف آواز بلند کی لیکن سرکار کا رویہ جوں کا توں رہا۔ ممبر پارلیمنٹ کنور دانش علی کا کہنا ہے کہ میں نے پارلیمنٹ میں بھی سوال کیا اور جب تک اردو کے ساتھ سوتیلا رویہ رہے گا میں آواز بلند کرتا رہوں گا۔ انہوں نے کہا کہ 2011 کی مردم شماری کے مطابق دیش کی 5 کروڑ آبادی اردو پڑھتی ، بولتی، سمجھتی او رلکھتی ہے اس لئے اتنی بڑی تعداد کو محروم نہیں کیا جاسکتا۔ بتادیں کہ محبان اردو کی چیخ وپکار ، اردو اخبارات، سوشل میڈیا اور نیوز چینلوں پر واویلا مچنے کے بعد وزارت مواصلات کے تحت عوامی نشریاتی ادارے’ پرسار بھارتی‘ جس کے تحت ڈی ڈی نیوز اور آل انڈیا ریڈیو آتے ہیں‘، نے ان خبروں کو گمراہ کن بتایااور علاقائی چینلوں پر آنےوالی اردو نیوز کو سمیٹ کر بتادیاگیا کہ قومی سطح پر اردو کیلئے 230 منٹ دیئے جارہے ہیںجبکہ سوال تھا کہ مارچ 2020 میں ڈی ڈی اردو یا ڈی ڈی نیوز پر اردو کے چلنے والے 10 اردونیوز بلیٹن کی بحالی کیوں نہیں کی جارہی ہے؟۔