مصر:غزہ کی پٹی میں فائر بندی اور اسرائیل اور حماس کے درمیان قیدیوں کے تبادلے کے حوالے سے اتوار اور پیر کے روز قاہرہ میں ہونے والے دو روزہ مذاکرات کسی طور بھی آسان نظر نہیں آئے۔اگرچہ امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے گذشتہ روز اعلان کیا تھا کہ اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو گذشتہ ہفتے دوحہ میں پیش کی جانے والی نئی امریکی تجویز پر آمادہ ہو گئے ہیں تاہم حماس نے باور کرایا ہے کہ یہ تجویز گذشتہ ماہ تنظیم کو پیش کی جانے والی تجویز سے یکسر مختلف ہے جس پر حماس آمادہ ہو گئی تھی۔
اتوار اور پیر کے روز قاہرہ میں ہونے والی بات چیت سے با خبر ذرائع کے مطابق اسرائیلیوں نے نیتن یاہو کے حکم پر ایک نقشہ پیش کیا جس میں فلاڈلفی راہ داری سے اسرائیلی فوج کے انخلا کے بجائے محض تعداد میں کمی دکھائی گئی۔حماس تنظیم ان امور پر ڈٹی ہوئی ہے کہ غزہ کی پٹی سے اسرائیلی فوج کا مکمل انخلا عمل میں آئے، فائر بندی کو پوری طرح یقینی بنایا جائے، امدادی سامان کو داخل ہونے دیا جائے۔ فلسطینی بے گھر افراد کو بنا کسی قید کے غزہ پٹی کے جنوب سے شمال میں واپس آنے دیا جائے اور اسرائیلی جیلوں میں قید فلسطینیوں میں سے بعض کی رہائی میں حائل اسرائیلی ویٹو کو ختم کیا جائے۔
ادھر اسرائیل نے غزہ کی پٹی سے مکمل انخلا سے انکار کر دیا ہے۔ وہ رفح کی راہ داری کے علاوہ محور صلاح الدین (فلاڈلفی) پر کنٹرول جاری رکھنے اور غزہ پٹی کے شمال میں فلسطینیوں کی واپسی پر قیود عائد کرنے کا مطالبہ کر رہا ہے۔ اسی طرح اسرائیل اُن فلسطینی قیدیوں کی فہرست پر شرائط رکھنا چاہتا ہے جن کی رہائی کا حماس نے مطالبہ کیا ہے۔یاد رہے کہ فلاڈلفی راہ داری غزہ اور مصر کے درمیان پھیلی ہوئی 14 کلو میٹر طویل سرحدی پٹی ہے۔ مصر اور اسرائیل کے بیچ 1979 میں دستخط ہونے والے امن سمجھوتے کے تحت یہ راہ داری ایک "بفرزون” شمار ہوتی ہے۔