نئی دہلی،5دسمبر : اردو فارسی کے قادر الکلام اور خاص طور پر موضوعاتی شاعر ڈاکٹر احمد علی برقی اعظمی کا آج علی الصباح اترپردیش کے جون پور میں حرکت قلب بند ہوجانے سے 67 سال کی عمر میں انتقال ہوگیا۔ان کے انتقال پر سرکردہ ادیبوں، شاعروں اور صحافیوں نے تعزیت کا اظہار کیا ہے ۔خاندانی ذرائع نے اطلاع دی ہے کہ ان کی تدفین بعد نماز عشاءاعظم گڑھ میں عمل میں آئے گی۔ذرائع کے مطابق چند روز پہلے وہ دہلی سے اعظم گڑھ اپنے وطن گئے تھے ۔اعظم گڑھ سے وہ گزشتہ روز اپنی سسرال جون پور پہنچے ۔اتوار کی رات وہ سوشل میڈیا پر ایکٹو تھے ،پیر کے روز صبح چار بجے انھیں گھبراہٹ محسوس ہوئی۔ اسپتال لے جایا گیا۔لیکن حرکت قلب بند ہونے کی وجہ سے پانچ بجے ان کا انتقال ہوگیا۔پانچ بجے جیسے ہی ان کے برادر نسبتی نے ان کے انتقال کی خبر پوسٹ کی ان کے دوست احباب،اعزاواقارب شاگر سب صدمے سے دوچار ہوگئے کسی کو یقین نہیں آرہا تھا۔لیکن موت کا دن تو معین ہے وہ اپنے وقت پر آگئی۔مسٹر برقی سوشل میڈیا کی وجہ سے وہ پوری دنیا میں مشہور و مقبول تھے ۔وہ25/ دسمبر1954کو اعظم گڑھ میں پیدا ہوئے ۔ابتدائی تعلیم وہیں حاصل کی شبلی نیشنل کالج سے ایم اے اردو کرکے دہلی آگئے جواہر لعل نہرو یونیورسٹی سے فارسی میں ایم اے اور پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔کچھ دن ایران کلچرل ہا¶س،نئی دہلی کی لائبریری میں ملازمت کی۔1984میں وہ آل انڈیا ریڈیو کے شعبہ فارسی سے منسلک ہوگئے کافی عرصے تک اس کے سربراہ بھی رہے ۔2014میں ملازمت سے سبکدوش ہونے کے بعد سے وہ اسی شعبے میں جزوقتی طور پر کام کرتے رہے ۔ان کے والد اعظم گڑھ کی تحصیل میں قانون گو تھے اور بہت اچھے شاعر تھے ۔احمد علی نے بھی بچپن سے ہی شعر کہنا شروع کردیاتھا۔ ان کا پہلا مجموعہ روح سخن2013میں منظر عام پر آیا اور دوسرا مجموعہ محشر خیال 2019میں شائع ہوا۔ان کا بہت سا کلام کمپیوٹر کی خرابی کی وجہ سے ضائع ہوگیا۔شعر کہنا ان کے لیے باتیں کرنے جیسا تھا۔ موضوعاتی شاعری کے وہ بے تاج بادشاہ تھے ۔5/ دسمبر کو جوش ملیح آبادی کا یوم ولادت ہے ان کی فیس بک وال پر قطع موجود ہے جو انھوں نے انتقال سے چند گھنٹے پہلے ہی پوسٹ کیا تھا۔ان کے انتقال سے اردو اور فارسی حلقوں میں غم کا ماحول پیدا ہوگیا۔غالب اکیڈمی کے سکریٹری ڈاکٹر عقیل احمد نے تعزیت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وہ غالب اکیڈمی کی گورننگ کونسل کے رکن تھے وہ غالب اکیڈی ہی نہیں اردو کے تمام اداروں کی خبریں سوشل میڈیا پر پوسٹ کرتے تھے ۔
ان کے جانے سے اردو کا بہت بڑا نقصان ہوا ہے ۔مسٹر فاروق ارگلی نے تعزیت کرتے ہوئے کہا کہ وہ اردو کے بے لوث خادم تھے ۔سرفراز فراز نے تعزیت میں کہا کہ وہ بہت مخلص اور نیک انسان تھے ۔شریف حسین قاسمی نے ٹیلی فون پر دکھ کا اظہار کیا۔ متین امروہوی نے کہا کہ ان کے انتقال کی خبر سن کر ایسا محسوس ہوا جیسے اپنا کوئی رخصت ہوگیا۔فرید احمد فرید نے کہا کہ بہت اچھے انسان تھے ۔ سہیل انجم نے انتقال کی خبر سن کر صدمہ کا اظہار کیا۔یامین انصاری نے تعزیت کرتے ہوئے کہا کہ وہ اردو کی اہم شخصیت پر روز کچھ نہ کچھ لکھتے تھے ، غالب اکیڈمی کی لائبریرین بشریٰ بیگم نے ان کی بیٹی رخشندہ سے فون پر بات کی تو انھوں نے بتایا کہ ان کی تدفین اعظم گڑھ میں 5/ دسمبر کو بعد نماز عشاءہوگی۔