عامر سلیم خان
نئی دہلی 9؍ دسمبر، سماج نیوز سر وس: بہوجن سماج پارٹی ( بی ایس پی ) ممبر پارلیمنٹ کنور دانش علی نے آج پارلیمنٹ میں کہا کہ آزادانہ اور منصفانہ انتخابات روایتی بیلٹ پیپر سے ہی ممکن ہیں، کیونکہ الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں میں غلطیاں ہوسکتی ہیں ۔انہوں نے لوک سبھا میں پرائیویٹ ممبربل پیش کرتے ہوئے کہا کہ آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کسی بھی قوم کے جمہوری اقدار کیلئے اہم ہوتے ہیں۔ اس میں منصفانہ اور شفاف انتخابی عمل شامل ہے جس کی آزادانہ طور پر تصدیق کی جا سکتی ہے۔ روایتی ووٹنگ نظام ان میں سے بہت سے اہداف کو پورا کرتے ہیں۔ الیکٹرانک ووٹنگ مشینیں (ای وی ایم) میں غلطیوں کا خدشہ رہتاہے، یہی وجہ ہے کہ دنیا کے کئی ممالک نے شفاف انتخابات کیلئے ای وی ایم کا استعمال ترک کر دیا ہے کیونکہ اس کی درستگی پر شکوک و شبہات پیدا ہوئے ہیں۔ ہمارے ملک میں بھی الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کو روایتی بیلٹ پیپرز سے بدل دینا چاہئے تاکہ انتخابات منصفانہ ہوسکیں اور لوگوں میں اعتماد پیدا ہو۔
مسٹر کنور دانش علی نے کہا کہ بیلٹ کے ذریعہ ووٹ ڈالنا کسی بھی ملک کے انتخابی عمل کیلئے زیادہ قابل اعتماد اور شفاف طریقہ ہے۔ مینوفیکچرنگ کے عمل کے دوران ہی ای وی ایم کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی جاسکتی ہے اور ایسے معاملات میں حقیقی ووٹنگ کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرنے کیلئے کسی ہیکر یا دھاندلی کی ضرورت نہیں۔انہوں نے کہا کہ دنیا کی کوئی بھی مشین 100% فیصد غلطیوں سے پاک نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کے اعتمادپر سوالات اٹھائے گئے ہیں، اس لئے ووٹنگ مشینوں کو بیلٹ پیپرز کے ذریعہ ووٹ کے زیادہ قابل اعتماد نظام سے تبدیل کیا جانا چاہئے تاکہ ملک میں آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کا انعقاد ہو اور جمہوریت پر عوام کا اعتماد برقرار رہے۔مسٹر کنور دانش علی واحد ایسے شخص نہیں ہیں جن کا اعتماد الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں پر سے اٹھتا جارہا ہے، نہ صرف ای وی ایم کیخلاف متعدد سیاسی پارٹیوں کے ذریعہ احتجاجات ہوچکے ہیں بلکہ یہ معاملہ ملک کی سب سے بڑی عدالت میں اٹھ چکاہے۔
نومبر 2020 میں ایڈوکیٹ سی آر جیا سوکن نے سپریم کورٹ میں ڈالی گئی ایک عرضی میں الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں میں غلطیوں کا خدشہ جتاتے ہوئے دلیلیں دی تھیں کہ کئی ممالک غلطیوں کی وجہ سے ای وی ایم کو چھوڑ چکے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ای وی ایم نے بھارت میں پرانے بیلٹ پیپرنظام کی جگہ لے لی ہے، حالانکہ انگلینڈ، فرانس، جرمنی، نیدرلینڈ اور امریکہ سمیت متعدد ممالک نے ای وی ایم کے استعمال پر پابندی عائد کر رکھی ہے۔انہوںنے دلیل دی کہ ای وی ایم کو آسانی سے ہیک کیا جاسکتا ہے اور اس میں چھیڑ چھاڑ کی جاسکتی ہے۔ای وی ایم کے ذریعہ ووٹر کے مکمل پروفائل تک رسائی حاصل کی جا سکتی ہے۔ حالانکہ جنوری 2021 میں سپریم کورٹ نے اس عرضی کو خارج کردیا تھا تاہم عرضی گزار وکیل نے ایسی ایسی دلیلیں دیں کہ واقعی مشینوں پر سے عوام کا اعتماد اٹھ جائے۔ انہوں نے عرضی میں کہاکہ اگر وزیراعظم کے دفتر میں موجود کمپیوٹر اور قومی سلامتی کے مشیر کے ایم نرائنن کا پرسنل کمپیوٹر ہیک ہوسکتا ہے تو پھرکیا یہ ممکن ہے کہ دور دراز اضلاع اور دیہی علاقوں میں شرپسندوں سے مشینیں محفوظ رہیں؟۔