نئی دہلی،20دسمبر،پریس ریلیز،ہمارا سماج: غالب کی ذہنی زندگی اور حقیقی زندگی میں ایسی کشمکش تھی جو آخر عمر تک باقی رہی۔ ان کے کلام میں نالہ و فریاد کا ایک بڑا سرچشمہ تھا۔ ان کے ذہن میں معانی و شوق کا جو وفور تھا وہ اظہار کے کسی پیرائے کی گرفت میں نہ آتا تھا۔ اس کی وجہ سے ان کے کلام میں لفظ و معنی کی آویزش اکثر محسوس ہوتی ہے۔ ان خیالات کا اظہار پروفیسر قاضی جمال حسین نے بین الاقوامی غالب سمینار کا کلیدی خطبہ پیش کرتے ہوئے کیا۔ انھوں نے مزید کہا کہ درد و الم سے کبیدہ خاطر ہونے کے بجائے غالب نے اسے راحت کا ذریعہ بنا لیا چنانچہ لذت درد، شکست آرزو، غم ہستی وغیرہ اسی لذت اندوزی کا شاخسانہ ہیں۔ غالب تقریبات کاافتتاح 20 دسمبر کو شام چھ بجے ایوان غالب میں سابق چیف انفارمیشن کمشنر جناب وجاہت حبیب اللہ نے کیا۔ اس موقع پر انھوں نے کہا کہ غالب تقریبات کے تحت ہونے والی سرگرمیاں ہماری علمی اور ثقافتی وابستگی کو واضح کرتی ہیں۔ سمینار کا موضوع ’فریاد کی کوئی لَے نہیں ہے‘ غور و فکر کے بہت سے زاویے اپنے اندر لیے ہوئے ہے۔ غالب نے درد و غم اور نارسائی کو جس سطح پر محسوس کیا وہ عام سطح سے بہت بلند ہے اور وہی انھیں بڑا تخلیق کار بناتی ہے۔ اجلاس کی صدارت غالب انسٹی ٹیوٹ کے سکریٹری پروفیسر صدیق الرحمٰن قدوائی نے کی انھوں نے کہا کہ انسان کی تمناوں کا ،خوابوںکا اور اُس کے عزم کا جس قدر خوبصورت اور پراعتماد بیان غالب کے یہاں ہے کہیں اور نہیں ملتا۔ ’فریاد کی کوئی لَے نہیں ہے‘ اس کا مطلب یہ ہے احساس غم کسی ضابطے کا پابند نہیں، نہ ہی اس کے اظہار کا مخصوص پیرایہ ہو سکتا ہے۔ یہ موضوع جتنا سادہ نظر آتا ہے اصلاً اتنا ہی گہرا اور پیچیدہ ہے۔ جامعہ ہمدرد کے وائس چانسلر پروفیسر محمد افشار عالم نے افتتاحی اجلاس میں بطور مہمان خصوصی شرکت کی اپنے تاثرات پیش کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ غالب انسٹی ٹیوٹ ہر برس بین الاقوامی غالب تقریبات کا انعقاد کرتا ہے اور یہاں ہر سال ایک ایسا موضوع منتخب کیا جاتا ہے جس میں نئی بات کہنے کی بہت گنجائش ہو۔ غالب کو پڑھنے کا مطلب ہی یہ ہے کہ انھیں نئے زاویے سے دیکھا جائے کیوں کہ وہ خود ساری زندگی فرسودگی سے دامن کش رہے۔ غالب کو یاد کرنا ایک اعتبار سے تازہ دم رہنے کا ہم معنی ہے۔ غالب انسٹی ٹیوٹ کے ڈائرکٹر ڈاکٹر ادریس احمد نے کہا غالب انسٹی ٹیوٹ ہر برس غالب کے یوم پیدائش کے موقع پر دسمبر میں غالب تقریبات کا اہتمام کرتا ہے اور یہ تقریبات محض رسمی نہیں ہوتیں بلکہ ہم نے پورے سال کیا کیا اس کی ایک رپورٹ بھی ہوتی ہے یہ رپورٹ کتابوں کی رونمائی کی شکل میں پیش کی جاتی ہے۔ مجھے یقین ہے کہ اس سال کا سمینار بھی بہت کامیاب رہے گا اور جب یہ کتابی شکل میں شائع ہوگا تو اس سے گفتگو آگے بڑھے گی۔اس موقع پر ڈاکٹر محمد الیاس اعظمی کو فخرالدین علی احمد غالب انعام برائے تحقیق و تنقید، پروفیسر محمد رضا نصیری (ایران) کو فخرالدین علی احمد غالب انعام برائے فارسی تحقیق و تنقید، اور پروفیسر عبدالرشید کو غالب انعام برائے مجموعی ادبی خدمات پیش کیا گیا۔ غالب انسٹی ٹیوٹ کی درج ذیل نئی مطبوعات کی رسم رونمائی ہوئی: (۱) غالب اور جشن زندگی، ڈاکٹر ادریس احمد (۲) غالب راز حیات اور اضطراب آگہی، پروفیسر صدیق الرحمٰن قدوائی (۳) توضیحی اشاریہ غالب نامہ، پروفیسر فاروق انصاری (۴) اردو ادب کی تشکیل جدید، پروفیسر ناصر عباس نیر (۵) کچھ غالب کے بارے میں، ڈاکٹر محضر رضا (۶) دیوان غالب (تمل ترجمہ ڈاکٹر سید رفیق پاشا حسینی) (۷) غالب نامہ کے دو شمارے (۸) ڈائری کلینڈر2025۔ افتتاحی اجلاس کے بعد معروف غزل سرا ڈاکٹر رادھیکا چوپڑا نے غالب اور دوسرے شعرا کی غزلیں پیش کیں۔ سمینار کے بقیہ اجلاس 21 اور 22دسمبر کو صبح دس بجے سے شام پانچ بجے تک ایوان غالب میں ہوں گے۔ 21 دسمبر کو شام چھ بجے عالمی مشاعرہ اور 22 دسمبر کو شام چھ بجے اردو ڈرامہ ’نظیر کتھا کیرتن‘ پیش کیا جائے گا۔