ترکیہ کے صدر طیب ایردوان نے کہا ہے شام کے علاقائی استحکام کو یقینی بنائے رکھنا ترکیہ کے لیے ایک ناقابل تنسیخ لکیر ہے۔ انہوں نے یہ بات پیر کے روز کہی ہے۔
شام کا علاقائی تحفظ ، خودمختاری ، استحکام اور اس کا وحدانیت پر مبنی ڈھانچہ ہر طرح کے حالات میں ترکیہ کے لیے ایسی لکیر ہے جو بدلنے والی نہیں۔ ہم اس سے کبھی پیچھے نہیں ہٹیں گے۔انہوں نے ان خیالات کا اظہار اسرائیل کو خبردار کرتے ہوئے کیا کہ وہ شام کی سرزمین سے نکل جائے اور اس کا قبضہ چھوڑ دے۔پچھلے ہفتے طیب ایردوان نے ان منصوبوں کو نشانہ بنایا تھا جن میں اسرائیل نے اعلان کر رکھا ہے کہ وہ گولان کی پہاڑی پر یہودی آبادی کو دو گنا کر دے گا۔
ایردوان نے اس کی مذمت کرتے ہوئے کہا ‘بشار الاسد کے اقتدار کے خاتمے کے بعد یہ اسرائیل کے توسیع پسندانہ عزائم کا اظہار ہے۔واضح رہے بشار الاسد رجیم کے خاتمے کے فوری بعد اسرائیل نے شام کے علاقے میں قائم بفر زون پر قبضہ کر لیا تھا اور سات مختلف پوزیشنوں پر اپنی فوج بٹھالی تھی۔ جو اب تک موجود ہے۔ اسی دوران گولان کی پہاڑیوں کی سب سے بلند چوٹی پر بھی اپنا فوجی کنٹرول بڑھا دیا۔
ایردوان نے کہا ‘اگرچہ اسرائیل ایک موقع پرست ہے۔ اسے جلد یا بدیر اس علاقے کو خالی کرنا ہوگا اور اسے ایسا کرنے پر مجبور کر دیا جائے گا۔ تاہم ترکیہ کے صدر نے اس سلسلے میں کوئی وضاحت نہیں دی کہ یہ کیسے ہوگا۔ گولان کی پہاڑیوں پر اسرائیل نے 1967 میں چھ دن جاری رہنے والی عرب اسرائیل جنگ کے دوران قبضہ کیا تھا جو اب تک جاری ہے۔اسرائیل اور شام کے درمیان اقوام متحدہ کی فوج کا گشت ہوتا ہے اور ایک بفر زون قائم ہے جسے غیرفوجی علاقہ قرار دیا گیا تھا لیکن اب اس پر اسرائیلی فوج آبیٹھی ہے۔ترکیہ کے صدر نے اپنی گفتگو میں مزید کہا کہ ان کا ملک دہشت گرد تنظیموں کے خلاف اپنی کوششیں جاری رکھے گا جو شام کے شمالی علاقوں میں موجود ہیں اور اپنی دہشت گردانہ کارروائیوں سے شہریوں کو نقصان پہنچاتی ہیں۔یاد رہے ہفتہ کے روز ترکیہ کے ایک ڈرون طیارے نے 5 کرد جنگجوؤں کو ہلاک کر دیا تھا۔ دو روز قبل ایک کرد صحافی ہلاک ہوا جو کرد جنگجوؤں اور ترکیہ کے حمایت یافتہ جنگجوؤں کی جھڑپوں کو کور کر رہا تھا۔ترکیہ کی فوج کا یہ کہنا ہے کہ اس نے کبھی بھی عام شہریوں کو نشانہ نہیں بنایا۔ البتہ دیشت گرد اس کے نشانے پر ہوتے ہیں۔ترکیہ چاہتا ہے کہ وہ شام کے شمالی حصے سے کرد جنگجوں کو اکھاڑ پھینکے جو ترکیہ میں دہشت گردی کے کئی واقعات کر چکے ہیں اور ترکیہ کے لیے بھی خطرہ ہیں۔