اسرائیل:اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو کے دفتر کے اعلان کے مطابق غزہ کی پٹی میں یرغمال قیدیوں کی رہائی سے متعلق مذاکرات میں شریک اسرائیلی وفد آج 24 دسمبر کی شام دوحہ سے واپس لوٹے گا۔ اس واپسی کا مقصد "داخلی مشاورت” کرنا ہے۔نیتن یاہو کے دفتر سے جاری بیان میں بتایا گیا ہے کہ مذاکراتی ٹیم ایک ہفتے کے اہم مذاکرات کے بعد قطر سے واپس آ رہی ہے۔ ٹیم میں اسرائیل کی انٹیلی جنس ایجنسی "موساد” کے علاوہ سیکورٹی اداروں اور فوج کے اعلی عہدے داران شامل ہیں۔
اس سے قبل قطری وزارت خارجہ کے سرکاری ترجمان ماجد الانصاری نے منگل کی صبح اعلان کیا تھا کہ غزہ کے حوالے سے مذاکرات دوحہ اور قاہرہ میں جاری ہیں۔ الانصاری نے ایک پریس کانفرنس میں بتایا کہ مذاکرات اس وقت فنی اور تکنیکی دائرے میں ہو رہے ہیں۔ انھوں نے تمام فریقوں پر زور دیا کہ بات چیت کو معطل کرنے والے کسی بھی اقدام سے گریز کیا جائے
واضح رہے کہ اسرائیلی ذرائع نے باور کرایا تھا کہ غزہ میں فائر بندی اور قیدیوں کی رہائی سے متعلق مذاکرات میں دشواریوں اور رکاوٹوں کا سامنا ہے۔ ذرائع نے تصدیق کی تھی کہ حماس کے ساتھ مذاکرات میں کوئی حقیقی پیش رفت نہیں ہوئی ہے تاہم بات چیت جاری ہے۔
غلاف ِ غزہ” کے علاقے میں اسرائیلی بستیوں اور فوجی اڈوں پر بڑے حملے کے بعد اسرائیل نے غزہ کی پٹی میں جنگ شروع کر دی تھی۔ اس کے بعد سے اب تک نومبر 2023 میں صرف ایک جنگ بندی دیکھنے میں آئی جس کے دوران میں 100 اسرائیلی قیدیوں کی رہائی کے مقابل سیکڑوں فلسطینی قیدیوں کو آزاد کیا گیا۔
اسرائیلی وفد کے دوحہ سے "اندرونی مشاورت” کے لیے روانہ ہونے کے بعد باخبر ذرائع نے بتایا کہ غزہ میں جنگ بندی تک پہنچنے کے لیے ہونے والی بات چیت میں پیش رفت نہیں ہوئی۔
تاہم اسرائیلی میڈیا نے رپورٹ کیا ہے کہ غزہ میں حماس کے سربراہ محمد السنوار نے اپنے مقتول بھائی یحییٰ السنوار کے مقابلے میں زیادہ سخت موقف کا مظاہرہ کیا ہے۔
اسرائیلی چینل 12 کے مطابق سینئر اسرائیلی حکام نے یہ بھی کہا ہے کہ زندہ اسرائیلی قیدیوں کی فہرست اسرائیل کے حوالے کرنا ایک بنیادی شرط ہے جس کے بغیر تبادلے کے معاہدے کے مذاکرات آگے نہیں بڑھ سکتے۔
انہوں نے مزید کہا کہ مفاہمت کے مطابق حماس کو جنگ بندی کے آغاز اور خواتین کی آزادی کے 7 دن بعد ایک مکمل فہرست سونپنی چاہیے جس میں اس کے تمام اسرائیلی قیدیوں کو شامل کیا جائے۔