اس دنیا میں سبھی آئے ہیں مرنے کے لیے لیکن کسی کسی کی موت بڑی تکلیف کا باعث ہوتی ہے اور اس سے پوری امت کسی نہ کسی طرح سے متاثر ہوتی ہے، انھیں میں سے ایک معروف صحافی عامر سلیم خان رحمہ اللہ بھی تھے، جو ابھی کل ہی بتاریخ 12/دسمبر 2022ء بروز سوم ہمیں داغ مفارقت دے گئے۔ چند دنوں قبل عارضۂ قلب کا شکار ہوئے، دہلی کے پنت اسپتال میں ایڈمٹ ہوئے اور پھر دو ہی دنوں بعد موت نے انھیں اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ انا لله و انا لله راجعون عامر سلیم خان بھائی ایک منجھے ہوئے سنجیدہ صحافی تھے اور صحافت ہی کو انھوں نے اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیا تھا، اس کیلئے انھوں نے مستقل طور پر دار الحکومت دہلی میں سکونت اختیار کر لیا تھا، جب کہ آپ کی پیدائش ضلع بستی کی ایک غیر معروف گاؤں کوہنڑا میں ہوئی تھی، ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد دہلی میں آگئے، جامعہ اسلامیہ سنابل، جامعہ ریاض العلوم میں داخل ہوئے اور پھر جامعہ رحیمیہ مہدیان سے فراغت حاصل کی اور فراغت کے بعد جامعہ رحیمیہ دہلی میں استاد مقرر ہو گئے۔وہ صحافتی مصرفیات کے باوجود جامعہ رحیمہ مہدیان میں بچوںکو پڑھاتے تھے۔فارسی زبان پر ان کی اچھی پکڑتھی۔ان کے انتقال کے بعد اردو صحافت کا بہت بڑا نقصان ہوا ہے۔ابتدائی ایام میں آپ نے رپورٹنگ کی اور پھر ایڈیٹر کی حیثیت سے کام کرنے لگے۔ آپ کے اندر ملی درد و تڑپ کوٹ کوٹ کر بھری تھی، انتہائی خلیق و ملنسار تھے، چھوٹے بڑے ہر ایک کے ساتھ بڑی خندہ پیشانی سے پیش آتے، کسی پر اپنی ایڈیٹری کا رعب نہیں جھاڑتے تھے، میں نے ان کی ماتحتی میں تقریباً دس سالوں تک کام کیا ہے، مگر وہ ہمیشہ ایک دوست اور رفیق کی طرح ملتے رہے، کبھی کسی پریشانی کا شکار ہوا تو فوراً اسے دور کرنے کی کوشش کرتے، غم و تکلیف کو چہرے ہی سے بھانپ لیا کرتے تھے۔ وہ ہمارے سینئر تھے، لیکن اپنے عمل و کردار سے کبھی اس بات کا احساس ہونے ہی نہیں دیا کہ ہم ان کے ماتحت کام کرنے والے ہیں۔مرحوم بہترین صحافی ہونے کے ساتھ ساتھ عالم، شاعر اور انتہائی اعلیٰ درجہ کے اخلاق کے مالک تھے۔ ان کا اسطرح اچانک چلے جانا ’ہماراسماج ‘ کےلئے بہت بڑا خسارہ ہے ۔ ابھی ان کی بیماری سے ایک دن پہلے میں اپنی چھٹی گذار کر 9/ دسمبر کو جب میں آفس پہنچا تو فوراً ہی انھوں نے از خود ملاقات کیا اور بڑے تپاک سے ملے، گھر کے بچوں کے حال احوال دریافت کرنے لگے، میں نے ان کو بتایا کہ عامر بھائی میرا بیٹا محمد دانش سلمہ اس بار گاؤں جمعہ کا خطبہ دیا ہے، وہ بہت خوش ہوئے پھر میں نے انھیں خطبۂ جمعہ ئویڈیو دکھائی تو خوشی کا اظہار کرتے ہوئے بہت سی دعائیں دیں۔ اس کے بعد مختلف موضوعات پر ان سے باتیں ہوئیں، اسی دوران انھوں نے اپنی ایک غیر مطبوع کتاب کا مسودہ دکھایا جس میں انھوں نے ان مسلم شخصیات کی حیات و خدمات پر گفتگو کی ہے، جنھوں نے سیاسی طور پر یا غیر سیاسی طور پر ملت کے تئیں عمدہ و نمایاں کام کیا تھا، کہنے لگے کہ کتاب تو تیار ہو جائے گی، مگر اس کی طباعت کا انتظام کہاں سے ہوگا؟ اس کے تھوڑی دیر بعد انھوں نے مجھے آواز دی حسیب بھائی! پانچ کالم گہرائی زیادہ رہے گی۔ یہ عامر بھائی کے روزآنہ کا معمول ہوا کرتا تھا کہ پہلے سے ہی بتا دیتے تھے کہ آج کتنی خبریں لکھنے والے ہیں اور کس کو کیا کیا کرنا ہے، کمپیوٹر آپریٹروں سے کہتے تھے میرا پلاٹ بک کرلو۔9 / دسمبر کو جب اخبار کا کام مکمل ہوا تو سب گھر جانے کی تیاری کرنے لگے تبھی صادق بھائی نے آواز لگائی حسیب بھائی عامر صاحب جب تک آپ نہیں کہیں گے تب تک گھر نہیں جائیں گے، اکثر و بیشتر میں مرحوم ہی کی بائیک پر بٹھ کر گھر آیا کرتا تھا اور یہ آپ کی عادت تھی کہ بائیک پر ہمیشہ ایک زائد ہیلمٹ رکھے رہتے تھے کہ اگر کوئی بیٹھنے والا مل جائے تو اسے ہیلمٹ نہ ہونے کی وجہ سے جرمانہ کا شکار نہ ہونا پڑے۔ عامر بھائی کی یہ انسیت صرف میرے ہی ساتھ خاص نہیں تھی بلکہ اور احباب سے بھی وہ اسی طرح کا تعلق رکھتے تھے۔ ان کی یہ عام عادت تھی اخوان و احباب کی مشکلات کو دیکھ کر غمزدہ ہو جاتے، لیکن کبھی انھوں نے اپنی پریشانی کا اظہار نہیں کیا، ہمیشہ ہر ایک سے بڑی خندہ پیشانی اور خوش دلی سے ملتے اور ہر ایک کے غم کو بانٹنے کی کوشش کرتے تھے۔ ان سے میرے 1998سے مراسم تھے اور اس پورے عرصہ میں کبھی ایسانہیں ہواکہ میری کسی بات پر انہوں نے کبھی ناگواری کا اظہارکیا ہو، وہ انتہائی ملنساراوردوست نوازانسان تھے انہیں رشتوں کو نبھانے کا ہنرآتاتھاان کی شخصیت میں بلاکی اپنائیت تھی یہی وجہ ہے کہ ان سے جو ایک بارملتاتھا، انہیں کاہوکررہ جاتاتھا۔عامر بھائی کی یہ خصوصیت تھی کہ وہ ہمیشہ ملی و سماجی خبروں کو اولیت دیتے تھے، بلکہ ایسا بھی ہوتا کہ سیاسی خبروں کے بالمقابل ملی خبریں نمایاں رکھتے تھے، اس کی وجہ یہ تھی کہ ملت کے تئیں بڑے حساس تھے، اسی لیے ملی مسائل اور پریشانیوں پر بڑی بیباکی سے لکھتے اور بولتے تھے۔ بہرحال عامر سلیم صاحب بہت سی خوبیوں کے مالک تھے۔ اللہ ان کی مغفرت فرما ئے اور ان کی بشری غلطیوں کو درگزر فرما کر جنت الفردوس کا مکین بنائے، ان کے اہل خانہ کو اس مصیبت کو برداشت کرنے کی ہمت دے اور انھیں صبر جمیل عطا فرمائے۔ آمین!یہ بات بھی بڑی خوش آئند ہے کہ اخبار ’ہمارا سماج‘ کے مالکان نے اپنے فعال صحافی عامر سلیم کے معصوم بچوں کی مکمل کفالت کا ذمہ لیا ہے۔ اس کے لیے محترم ڈاکٹر خالد انور صاحب کا بہت بہت شکریہ اور دیگر وہ احباب بھی شکریہ کے مستحق ہیں جو مرحوم کی بیوہ اور بچوں کے لیے فکر مند ہیں۔ اللہ سب کو اجر جزیل سے نوازے۔ آمین! پسماندگان میں اہلیہ اور تین بیٹے ابان 15سال امان 12سال ایان 6سال کے ہیں ۔ ابھی چند دنوں پہلے دہلی ہی میں ان کے والد محترم چودھری سلیم خان کا انتقال ہوا تھا اور تدفین مہدیان قبرستان میں ہوئی تھی۔ کیا خبر تھی کہ سعادت مند بیٹا بھی چند دنوں میں باپ کے بغل میں ابدی نیند سوجائے گا۔ بہت ہی درد ناک خبر ہے۔ اللہ مغفرت فرما ئے اور بشری غلطیوں کو درگزر فرما کر جنت الفردوس کا مکین بنائے، ان کے اہل خانہ کو اس پہاڑ جیسی مصیبت کو برداشت کرنے کی ہمت و حوصلہ دے اور انھیں صبر جمیل عطا فرمائے۔ آمین! ہمارا سما ج کے دفتر میں ان کے احباب ڈاکٹر خالد انور،شمیم الرحمن، سید مجاہد حسین ،منہاج احمدقاسمی ،صادق شروانی،زاہد خان،محمد اقبال، محمدعمران ،ساگرمشرا،انوراگ سولنکی ،انل گوجر،سنیل وغیرہ سخت صدمے میں، وہ ان کے لیے دعائے مغفرت کر رہے ہیں اور احباب سے عاجزانہ درخواست کر رہے ہیں کہ موصوف کے لیے دعائے مغفرت فرمائے۔