غالب انسٹی ٹیوٹ کے زیر اہتمام بین الاقوامی غالب تقریبات کا آغاز
غالب اردواور ہندی سمیت متعدد زبانوں کے شاعر ہیں: ہریش ترویدی
نئی دہلی: 16دسمبر:()غالب انسٹی ٹیوٹ کے زیر اہتمام سالانہ بین الاقوامی غالب سمینار بعنوان”ہوتا ہے شب و روز تماشا مرے آگے“ کا آج نہایت ہی تزک و احتشام کے ساتھ ایوان غالب میں افتتاح عمل میں آیا۔ ان تقریبات کے تحت تین دنوں تک شام غزل،عالمی مشاعرہ اور داستان سرائی کا اہتمام کیا رہا ہے۔ افتتاحی اجلاس کا باضابطہ آغاز مہمانوں کی خدمت میں گلدستہ پیش کرکے ان کا والہانہ استقبال کیا گیا۔
سمینار کا افتتاح کرتے ہوئے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر طارق منصورنے کہاکہ ہمیں اور لوگوں سے سیکھنا چاہئے کہ زبان کو کیسے فروغ دیں۔ اردوصرف بولنے سے نہیں آتی ہے بلکہ آپ کو اردو لکھنی اور پڑھنی بھی آنی چاہئے۔ ہمیں اپنے زبان کی تعلیم دینے کے لیے کسی انتظامیہ اور حکومت پرمنحصر نہیں رہنا چاہئے۔اردو اتنی خوبصورت زبان ہے کہ اس سے ہر انسان متاثر ہے، ہم مل کر کام کریں گے تو اردو اسی طریقے سے ترقی کرتی رہے گی۔اس اجلاس کی صدارت انگریزی کے معروف دانشور پروفیسر ہریش ترویدی نے کی۔ انہوں نے غالب انسٹی ٹیوٹ کی ستائش کرتے ہوئے کہاکہ مجھے بہت خوشی ہے کہ غالب کے حوالے سے اس عظیم الشان پروگرام کا انعقاد کیا گیا ہے، ہم غالب کو اسکول کے زمانے سے پڑھتے چلے آئے ہیں۔ غالب اردواور ہندی سمیت متعدد زبانوں کے شاعر ہیں۔ انہوں نے غالب کا موازنہ اہم مغربی شعراء سے کیا۔
سابق چیف الیکشن کمشنر ایس وائی قریشی نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہاکہ غالب ایک شاعر تھے یا فلسفی۔ ان کا بغور مطالعہ کیا جائے تو ظاہر ہوتا ہے کہ وہ بنیادی طور پر فلسفی تھے۔ اردو کو نظر انداز کیے جانے کے معاملے میں ہم لوگوں کا قصور ہے، دراصل ہم لوگوں نے اپنے بچوں کو اردو نہیں پڑھائی ہے۔ ہمیں چاہئے کہ اردوکے رسائل اور اخبارات ضرور خریدیں تاکہ ہمارے بچوں میں اردو کے تئیں بیداری اور شوق پیدا ہو۔ سمینار کا کلیدی خطبہ غالب انسٹی ٹیوٹ کے سکریٹری پروفیسر صدیق الرحمٰن قدوائی نے پیش کیا۔ اس موقع پر انہوں نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہاکہ غالب کی شاعری کاجب ذکر آتاہے تو یہی سوال اٹھتا ہے کہ وہ وجود میں آنے اور وقت گزرنے کے بعد زندہ کیوں ہے اور اس کی زندگی میں اضافہ کیوں ہوتاجاتاہے۔ اُن کے بہت سارے اشعار جنہیں خود انہوں نے یااُن کے معتقدین نے کبھی دیوانِ غالب سے نکال دیا تھاوہ اچانک کسی مخطوطے یا مسودے کے ساتھ نئے سرے سے وارد ہوتے ہیں تو وہ اچانک چونکا دیتے ہیں اور ان کا اثر نئے حالات میں کچھ نیااور کچھ مختلف لگتا ہے۔
اس موقع پر ادبی دنیا میں نمایاں خدمات انجام دینے کے لیے 6 شخصیات کی خدمت میں غالب انعامات پیش کیے گیے ان میں: پروفیسر قدوس جاوید کو ’برائے اردو تحقیق و تنقید‘، پروفیسرسید احسن الظفر کو’برائے فارسی تحقیق و تنقید‘، پروفیسر ابن کنول کو’برائے اردو نثر‘، ڈاکٹر بشیر بدر کو’برائے اردو شاعری‘، جناب محمود فاروقی کو’برائے اردو ڈرامہ‘، پروفیسر سید ظل الرحمٰن کو’برائے مجموعی خدمات‘ کا نام شامل ہیں۔اس موقع پر غالب انسٹی ٹیوٹ کی نئی مطبوعات، دیوان غالب پنجابی، معاصر اردو ادب میں نئے تخلیقی رویے مرتبہ پروفیسر صدیق الرحمٰن قدوائی، غالب اور عالمی انسانی قدریں مرتبہ ڈاکٹر ادریس احمد،غالب کا خود منتخب کردہ فارسی کلام اور اس کا طالب علمانہ مطالعہ، مصنفہ جناب بیدار بخت، غالب:دنیائے معانی کا مطالعہ مصنفہ پروفیسر انیس اشفاق، گم شدہ معنی کی تلاش، مصنفہ پروفیسر سرورالہدیٰ، غالب نامہ کے دو شمارے، ڈائری کلنڈر کی رسم رونمائی بھی کی گئی۔
افتتاحی اجلاس کے اختتام پر اظہار تشکر ادا کرتے ہوئے غالب انسٹی ٹیوٹ کے ڈائرکٹر ڈاکٹر ادریس احمد نے بتایا کہ ہر سال کی طرح اس سال بھی بین الاقوامی غالب تقریبات اسی شان سے منعقد کیا گیا ہے۔غالب انسٹی ٹیوٹ ہر برس غالب کے یوم پیدائش کے موقع پر دسمبر میں غالب تقریبات کا اہتمام کرتا ہے اور یہ تقریبات محض رسمی نہیں ہوتیں بلکہ ہم نے پورے سال کیا کیا اس کی ایک رپورٹ بھی ہوتی ہے، یہ رپورٹ کتابوں کی رونمائی کی شکل میں پیش کی جاتی ہے۔ ہم نے اس سال کئی اہم مذاکرے اور خطبات کا اہتمام کیا جس کے آپ میں سے بیشتر لوگ گواہ بھی ہیں۔ اپنی فعالیت کی بنیاد پر یہ ادارہ بین الاقوامی شہرت یافتہ ادارے کی حیثیت حاصل کر چکا ہے۔ افتتاحی اجلاس کے بعد شام غزل کا اہتمام کیا گیا، جس میں معروف غزل سنگر محترمہ رشمی اگروال نے غزل پیش کی۔