کووڈ خطرہ ابھی ٹلا بھی نہیں ملا کہ خسرہ روبیلا کے پھیلنے کی خبریں آنے لگیں۔ خسرہ روبیلا ایک مہلک مرض ہے۔ جو وائرس کے ذریعہ پھیلتا ہے۔ بچوں میں خسرہ کے سبب معذوری اور بے وقت موت ہو سکتی ہے۔ وزارت صحت و خاندانی بہبود میں وزیر مملکت بھارتی پروین پوار ایک سوال کے جواب میں پارلیمنٹ کو بتایا کہ بھارت میں خسرہ سے اس سال 40 موتیں ہوئی ہیں۔ جبکہ دس ہزار سے زیادہ بچے اس بیماری سے متاثر ہیں۔ متاثرین کی سب سے زیادہ 3075 معاملے اور 13 اموات مہاراشٹر میں ریکارڈ کی گئی ہیں۔ اس کے بعد جھارکھنڈ، گجرات، ہریانہ، بہار اور کیرالہ کا نمبر آتا ہے۔ جہاں بالترتیب 2683، 1650، 1537، 1276 اور 196 معاملے رپورٹ ہوئے ہیں۔ بڑھتے ہوئے معاملوں کو دیکھتے ہوئے وزارت صحت نے تمام کمزور علاقوں کے 9 ماہ سے پانچ سال تک کے بچوں کو خسرہ روبیلا کی اضافی خوراک دینے کا مشورہ دیا ہے۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ جن علاقوں میں 9 ماہ سے کم عمر کے بچوں میں خسرہ کے کل معاملے 10 فیصد سے زیادہ ہیں وہاں 6 ماہ سے 9 ماہ کے تمام بچوں کو خسرہ روبیلا کی خوراک دی جائے۔
یونیسیف ہیلتھ اسپیشلسٹ اشیش چوہان کا کہنا ہے کہ جب بھی حفاظتی ٹیکوں کے کوریج میں کمی آتی ہے۔ ویکسین کے ذریعہ روکی جانے والی بیماریوں میں خسرہ سب سے تیز واپس آتی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ نہ صرف بھارت میں بلکہ عالمی سطح پر کووڈ -19 ویکسین کوریج میں کمی، خسرہ کی کمزور نگرانی، ویکسینیشن میں تاخیر اور روکاوٹ کا سبب بنا۔ اس وجہ سے ہی خسرہ روبیلا نے بچوں کو متاثر کیا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ 2017 سے 2019 کے دوران میزل روبیلا ویکسینیشن مہم کے تحت ملک کی 34 ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام علاقوں کے 324 ملین 9 ماہ سے 15 سال تک کے بچوں کو ایم آر ٹیکہ لگایا گیا تھا۔ 17-2019 میں خسرہ روبیلا کی پہلی خوراک کا کوریج 90-95 اور دوسری خوراک کا 80-85 فیصد تھا۔ لیکن کووڈ-19 کے دوران ویکسینیشن میں غیر معمولی کمی آئی ہے۔ اس کی وجہ سے ایک سے چار سال تک کے بچوں میں یہ بیماری پھیلی ہے۔
ڈاکٹر سنتوش شکلا امیونائزیشن ڈائریکٹر مدھیہ پردیش نے کہا کہ خسرہ روبیلا ایک مہلک بیماری ہے۔ جو وائرس کے ذریعہ پھیلتی ہے۔ سردی کھانسی آنکھیں لال تیز بخار منھ لال خسرہ روبیلا کی علامت ہے۔ اس کا وائرس دھیرے دھیرے اثر کرتا ہے۔ یہ لڑکے یا لڑکی دونوں کو متاثر کر سکتا ہے۔ اگر کسی بچے کو تیز بخار ہو۔ ناک بہنے لگے، کف آئے اور جسم پر لال نشان نظر آئیں تو فوراََ ڈاکٹر کی صلاح لینی چاہئے۔ خسرہ روبیلا کا انفیکشن معمولی ہوتا ہے لیکن اگر توجہ نہیں دی گئی تو یہ دھیرے دھیرے کان، آنکھ، دماغ کو متاثر کرتا ہے۔ کان سے پس آ سکتا ہے جو بہرے پن کی وجہ بنتا ہے۔ آنکھ خراب ہو سکتی ہے یا پھر بچہ دماغی طور پر کمزور ہو سکتا ہے۔ اس کی زد میں کوئی حاملہ خاتون حمل کے ابتدائی ایام میں آجائے تو اس کے خطرناک نتائج سامنے آتے ہیں۔ کچھ بچے مردہ ہی پیدا ہوتے ہیں توکچھ پیدا ئشی بہرے، نا بینا، دماغی طور پر کمزور یا پھر دل میں سوراخ ہونے جیسی بیماریوں کی گرفت میں آ جاتے ہیں۔ اسے خلقی روبیلا سنڈروم کہتے ہیں جس کا کوئی علاج نہیں ہے۔ میڈیکل سائنس دانوں کی نظر میں ان بیماریوں سے محفوظ رہنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ خسرہ روبیلا جیسے وائرس کو ختم کرنے کیلئے صدفیصد ٹیکہ کاری کے ہدف کو پورا کیا جائے۔ ایم آر ویکسین دنیا کے 120 ممالک میں استعمال ہو رہا ہے۔ خود بھارت میں پرائیویٹ ڈاکٹر آٹھ نو سو روپے کی فیس وصول کر کے یہ ٹیکہ فراہم کرتے ہیں۔ اس کی وجہ سے خسرہ روبیلا کا ٹیکہ غریب عوام کی پہنچ سے دور تھا۔ لیکن اب ایم آر ویکسین ہمارے ویکسینیشن پروگرام کا حصہ ہے۔ جو خسرہ روبیلا متعدی بیماری سے بچاتا ہے۔ خسرہ کا انفیکشن چھینکنے، کھانسنے سے نکلے جرثوموں سے پھیلتا ہے۔
2015 میں خسرہ کی وجہ سے عالمی سطح پر 134,200بچوں کی موت ہوئی تھی۔ ان میں سے49,200 یعنی 36 فیصد بچے بھارت کے تھے۔ ایک اندازہ کے مطابق اب بھی ہر سال32۔35 ہزار بچے موت کے منھ میں چلے جاتے ہیں۔ جو بچ گئے، ان سے دوسروں کے متاثرہونے اور ڈائریا و نمونیا جیسے موذی مرض کی زد میں آنے کا جوکھم اور بڑھ جاتا ہے۔ شعبہ صحت نے 2020 تک خسرہ روبیلا کو پوری طرح ختم کرنے کا ہدف رکھا تھا لیکن اب 2023 تک اس بیماری سے ملک کو نجات دلانا ہے۔ اس ٹارگیٹ کو حاصل کرنے کیلئے 9 جنوری سے مہم شروع ہونے والی ہے۔
یہ ٹیکہ انہیں بھی دیا جائے گا جو خسرہ کا ٹیکا پہلے لگوا چکے ہیں۔ کمیونٹی سینٹروں ، آنگن واڑی مراکز اور سرکاری صحت مراکز پر ٹیکہ لگایا جائے گا تاکہ کوئی بھی بچہ چھوٹنے نہ پائے۔ ایم آر ویکسین ایک خاص طرح کی سیرنج کے ذریعے دی جاتی ہے۔ اس میں مقررہ خوراک سے کم یا زیادہ دوائی نہیں لی جا سکتی اور نہ ہی انجکشن دوبارہ استعمال ہو سکتا ہے۔ ایم آر ٹیکہ پوری طرح محفوظ ہے، اس کے کو ئی سائیڈ ایفیکٹ نہیں ہو تے۔ بچوں کو ٹیکہ تربیت یافتہ طبی کارکنوں کے ذریعے لگایا جاتا ہے۔ کئی لوگ اس کو لے کر غلط فہمیوں کے شکار ہیں جبکہ تمام ماہر امراض اطفال، سائنس دان، سماجی کارکن اور مذہبی رہنما ٹیکہ کاری کی حمایت کرتے ہیں۔ خسرہ روبیلا پندرہ سال تک کے بچوں کیلئے زیادہ خطرناک ہے۔ ایک روبیلا انفیکٹڈ بچہ آس پاس کے 80۔95 فیصد بچوں تک یہ وائرس پہنچا سکتا ہے۔ اس مہم کے تحت پانچ سال تک کی عمر کے تمام بچوں کو ٹیکہ کاری کے ذریعہ بیماری سے محفوظ کیا جائے گا۔
ملک میں ممکنہ مکمل ٹیکہ کاری کے ہدف کوایک مقررہ مدت یعنی 2023 تک پورا کرنے کیلئے یہ مہم چلائی جانے والی ہے۔ ڈاکٹر آشیش چوہان ہیلتھ اسپیشلسٹ یونیسیف انڈیا نے امید ظاہر کی کہ پولیو کی طرح میزل روبیلا کو بھارت سے مٹانے میں ہمیں کامیابی حاصل ہو گی۔ ان کا کہنا ہے کہ ٹیکہ کاری سے نہ صرف بچوں کی زندگی کی حفاظت ہوتی ہے، بلکہ اس سے ان کی صحت اور بہتر مستقبل کو یقینی بنایا جا سکتا ہے۔ عوامی صحت کے ذرائع میں یہ ایک کم لاگت والا کارگر طریقہ ہے۔ ڈاکٹر وینا دھون نے کہا کہ صحیح معلومات کے ذریعہ ہی بیماری کا مقابلہ کیا جا سکتا ہے۔ انہوں نے ایم آر ٹیکہ کاری مہم کو کامیاب بنانے کے لئے میڈیا سے تعاون کی اپیل کی۔ انہوں نے کہا کہ میڈیا کی پہنچ ان دور دراز علاقوں میں بھی ہے جہاں پہنچنا آسان نہیں ہوتا۔ ایم آر ٹیکے سے کوئی بھی بچہ نہ چھوٹے اس کیلئے ڈسٹرکٹ ٹاسک فورس (ڈی ٹی ایف) میں ضلع کمشنرز کو شامل کیا گیا ہے۔ بیماری سے ڈرنے کی ضرورت ہے ٹیکہ سے نہیں۔ ہمارا عزم اور مہم کے ساتھ ہماری وابستگی ہی خسرہ روبیلا سے ملک کو نجات دلا سکتی ہے۔