پٹنہ،17 جون : پروفیسر وہاب اشرفی کا شما ر اردوکے مقتدر اصحاب قلم میں ہوتا ہے۔ انہوں نے ایک منفرد ادیب ، نقاد،محقق،مورّخ افسانہ نگار،استاد اور دانشور کی حیثیت سے عالمی سطح پر اپنی شناخت قائم کی ۔ اپنی وقیع تنقیدی نگارشات کے باعث وہ اردو کے سربرآوردہ ناقدوں میں شمار کیے جاتے ہیں۔ ادبی دنیا میں آپ کا سب سے بڑا کارنامہ”تاریخ ادبیات عالم“ کی سات جلدیں ہیں، جس میں آپ نے عالمی ادب کو اردو زبان سے روشناس کرانے کی بھر پور اور کامیاب کوشش کی ہے۔آپ کا دوسرا قابل فخر کارنامہ ”تاریخ ادب اردو“ کی چار جلدیں ہیں۔یہ اردو ادب کی تاریخ پر ایک جامع اور مفصل تصنیف ہے۔ ”تاریخ ادبیات عالم“ پر آپ کو صدر جمہوریہ ہند ڈاکٹر شنکر دیال شرما کے ہاتھوں ”بھارتیہ بھاشا پریشد“ کا پروقار ایوارڈ اور تاریخ ادب اردو پر ”ساہتیہ اکادمی ایوارڈ“ جیسے پروقاراعزاز سے سرفرازکئے گئے۔ ان خیالات کا اظہار اردو ڈائرکٹوریٹ ،محکمہ کابینہ سکریٹریٹ کے زیر اہتمام فنیشور ناتھ رینو ہندی بھون واقع آڈیٹوریم میں منعقد پروفیسر وہاب اشرفی یادگاری تقریب و بزم سخن میں مقالہ خواں حضرات نے مشترکہ طور پر کیا۔تقریب کا آغاز شمع افروزی کے ذریعہ ہوا۔پروگرام کے آغاز میں استقبالیہ و تعارفی کلمات پیش کرتے ہوے ڈائر کٹر، اردو ڈائرکٹوریٹ، ایسایم پرویز عالم نے سبھی معزز مہمانوں ،میڈیا کے نمائندگان اورکالج سے آئے ہوئے سبھی طلبہ و طالبات کا والہانہ استقبال کیا۔ انہوں نے اردو ڈائرکٹوریٹ کے زیر اہتمام چل رہے سرکاری اسکیموں کے حوالے سے گفتگو کی۔ڈائرکٹر موصوف نے کہا کہ ریاستِ بہار کی جانب سے دوسری سرکاری زبان اردو کی ترقی و ترویج اور عوامی سطح پر اس کی مقبولیت میں اضافہ کے لئے وزیر اعلیٰ بہار کی سرپرستی میں حکومتِ بہار کی جانب سے بہت سے اہم ،مفید اور کامیاب منصوبے چلائے جا رہے ہیں۔ان منصوبوں کا فائدہ براہِ راست اردو آبادی کو پہنچ رہا ہے۔ انہوں نے وہاب اشرفی کے تعلق سے گفتگو کرتے ہوئے ان کی خدماتِ زبان وادب کا اعتراف کیا اور ان کو خراجِ عقیدت پیش کی۔انہوں نے کہا کہ وہاب اشرفی نے اردو زبان و ادب میں عالمی سطح پر اپنی شناخت قائم کی ، اپنی جامع اور وقیع تنقیدی نگارشات کے باعث وہ اردو کے ممتاز ناقدوں میں شمار کئے جاتے ہیں۔جےڈیویمنس کالج، پٹنہ کی طالبات نے مقالے پیش کئے۔وہاب اشرفی یادگاری تقریب کی صدارت پروفیسرتوقیر عالم،سابق پرو وائس چانسلر، مولانا مظہر الحق عربی و فارسی یونیورسٹی،پٹنہ نے کی۔صدارتی خطبہ پیش کرتے ہوئے پروفیسر توقیر عالم نے وہاب اشرفی پر پڑھے گئے مقالوں پر مختصر اور جامع تبصرہ پیش کیا انہوں نے کہا کہ وہاب اشرفی کی شخصیت نابغہ ¿ روزگار تھی۔ وہ اردو زبان و ادب کی خدمت کے لئے پیدا ہوئے۔ انہوں نے اپنی ادارت میں ایک مجلہ ”صنم“نکالا جو اردو حلقوں میں کافی مقبول ہوا۔
ڈاکٹر ہمایوں اشرف ،ایسوسیٹ پروفیسر، وِنوبا بھاوے یونیورسٹی، ہزاری باغ نے اپنے مقالے کے ذریعہ وہاب اشرفی کی تنقیدی تحریروں،تحقیقی کاموں اور اردو ادب میں ان کے ہمہ جہت کاموں پر مفصل روشنی ڈالی۔انہوں نے کہا کہ وہاب اشرفی کا تنقیدی کینوس بہت وسیع ہے۔ ان کی تحریروں میں علمی و ادبی سنگم کا امتزاج ملتا ہے، جو انہیں دوسروں سے ممتاز کرتا ہے۔ان کی تصانیف اردو زبان و ادب کے لئے گراں قدر سرمایہ ہے۔ڈاکٹر عاصم شہنواز شبلی، ایسوسیٹ پروفیسر، مولانا آزاد کالج، کولکاتا نے کہا کہ وہاب اشرفی شعر و ادب کے ہر صنف پر نظر رکھتے تھے۔ ان کی شخصیت میں کوئی ملمع اور تصنع نہیں تھا۔ وہ ہر ایک سے خندہ پیشانی سے ملتے تھے ۔ان کے علمی و ادبی نقوش اردو زبان و ادب میں روز روشن کی طرح عیاں ہے۔ انہوں نے ”تاریخِ ادبیات عالم “پر قاموسی کام کیا ہے۔ڈاکٹر سرور حسین، معروف ادیب و ناقد،پٹنہ نے کہا کہ وہاب اشرفی ادب میں آفاقیت کے قائل ہیں لہٰذا کسی بھی ادب کے فروغ کے حوالے سے وہ عالمی ادب میں رونما ہونے والی تحریکات اور رجحانات سے واقفیت کو ضروری سمجھتے ہیں۔ اسی لئے اردو شعر و ادب کی تفہیم اور تجزئےے میں وہ مغربی اصولِ نقد سے استفادہ پر زور دیتے ہیں۔ وہ ادب کو جامد و ساکت نہیں سمجھتے ۔ ان کا خیال ہے کہ ہر ادب اپنے عہد کا ترجمان ہوتا ہے۔ اس موقع پر اسٹیج پر موجود مہمانوں و دیگر معزز شخصیات کے ہاتھوں وہاب اشرفی کے صاحبزادے پروفیسر انجم اشرفی کی شال پوشی کرکے ان کی عزت افزائی کی گئی۔دوسرے اجلاس میں مظفر ابدالی، چیف پوسٹ ماسٹر جنرل،بہار کی صدارت میں بزم سخن آراستہ کی گئی۔انہوں نے اپنا کلام خوبصورت اور پُر کشش انداز میں پیش کیا اور سامعین نے ان کو خوب داد و تحسین سے نوازا۔اس محفل میں شمیم شعلہ، پٹنہ،اعجاز رسول، نوادہ، مرغوب اثر فاطمی، گیا، تحسین روزی،پٹنہ، شبیر حسن شبیر، اورنگ آباد، منیر سیفی، پٹنہ،ذاکر حسین ذاکر، بتیا، رخشاں ہاشمی،مونگیر اور سنجے کمار کندن، پٹنہ نے اپنے کلام سے سامعین کو خوب محظوظ کیا۔تقریب میں بڑی تعداد میں اردو زبان و ادب کی بڑی اہم اور معزز شخصیات جیسے پروفیسر اعجاز علی ارشد،پروفیسر جاوید حیات، مشتاق احمد نوری ، پروفیسر شائستہ انجم نوری، ڈاکٹر شہاب ظفر اعظمی، ڈاکٹر قاسم خورشید،شمیم قاسمی، ڈاکٹر اےکےعلوی ،نیاز نذر فاطمی، پرویز اختر ، سبکدوش آئیپیایس آفیسر، امتیاز کریم، اشرف النبی قیصر، آصف سلیم، اثر فریدی، زرنگا ر یاسمین اور رحمت یونس وغیرہ نے شریک ہوئے۔تقریب کی نظامت محمد ہاشم اور بزم سخن کی نظامت سنجے کمار کندن نے بحسن و خوبی انجام دئے۔