ایران اور اسرائیل کے درمیان جاری کشیدگی نے دیکھتے ہی دیکھتے بیانات اور خفیہ کارروائیوں کے حدود کو پھلانگ کر کھلے عام عسکری تصادم کی شکل اختیار کی اور دونوں طرف کے ہزاروں افراد کو موت کی نیند سلا دیا جبکہ کئی ہزار لوگوں کو زخمی اور معذور بنا دیا ۔ مشرقِ وسطیٰ کے اس انتہائی نازک توازن میں حالیہ جھڑپوں نے پورے خطے کو ایک خطرناک موڑ پر لاکھڑا کیا ہے، جہاں "کون جیتا، کون ہارا؟” جیسے سوالات سے زیادہ اہم یہ ہو گیا ہے کہ اس جنگ نے عام لوگوں سے کتنی قیمت وصول کی ۔
ظاہری سطح پر دیکھا جائے تو اسرائیل نے اپنی جدید عسکری قوت، فضائی دفاعی نظام اور امریکی پشت پناہی کے ساتھ کئی ایرانی تنصیبات کو نشانہ بنایا اور دنیا پر اپنا خوف مسلط کرنے کی پوری کوشش کی لیکن اسے ناکامی کا سامنا ہی کرنا پڑا ۔کیونکہ نہ تو اس کے ہدف کے مطابق ایران میں اقتدار کی تبدیلی کے لئے عوامی انقلاب ہوا ۔نہ ہی ایران کی جوہری توانائی کو کوئی بڑا نقصان ہوا اور نہ ہی ایران نے کان پکڑ کر عالمی قوتوں کے سامنے آئندہ کبھی جوہری توانائی حاصل کرنے کی اپنی کوششوں سے توبہ کیا ۔بلکہ اس کے برعکس ایران نے اپنے اتحادی گروہوں جیسے حزب اللہ، حماس اور عراقی ملیشیاؤں کے ذریعے اپنی طاقت کا بھرپور مظاہرہ کیا۔ ایرانی میزائلوں اور ڈرون حملوں نے اسرائیل پر یہ واضح کر دیا کہ اسے اب کسی بھی محاذ پر خود کو محفوظ سمجھنا بھول جانا چاہیے۔اور یہ سارے اہداف ایران نے اس وقت حاصل کئے جب اس کی مدد کے لئے دنیائے عرب کا کوئی ملک آگے نہیں آیا اور اس کی ہوائی طاقت بالکل ہی صفر تھی ۔آج ساری دنیا ایران کے حوصلہ ،قوت برداشت اور مستقل مزاجی کی داد اسی لئے دے رہی ہے کہ اس نے امریکہ اور اسرائیل جیسے سوپر پاور سمجھے جانے والے ممالک کو محض بارہ دنوں کے اندر ہی سیز فائر کرنے پر مجبور کر دیا ۔جبکہ ایران تیس سے زیادہ سالوں سے عالمی پابندیوں کا درد بھی جھیل رہا ہے ۔
لیکن اگر اس جنگ کو صرف عسکری کامیابیوں یا نقصان کے پیمانوں سے جانچا جائے تو ہم ایک بڑی حقیقت سے آنکھیں چراتے ہیں اوور وہ ہے انسانی المیہ۔ ہزاروں بےگناہ شہریوں کی ہلاکت، مہاجرین کی بڑھتی تعداد، بنیادی ڈھانچے کی تباہی، اور ایک مستقل خوف کی فضا—یہ سب وہ نقصانات ہیں جن کا خمیازہ دونوں ممالک کے عوام کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔
اسرائیل بین الاقوامی برادری میں اب بھی ایک "قانونی ریاست” کے طور پر اپنی حمایت قائم رکھے ہوئے ہے، لیکن حالیہ جنگوں اور فلسطین میں اس کی کارروائیوں نے عالمی سطح پر اس کی ساکھ کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔ دوسری طرف ایران نے اپنی مزاحمتی قوت کا مظاہرہ تو کیا، مگر عالمی پابندیوں، داخلی اقتصادی بحران اور سفارتی تنہائی نے اس کی طاقت کو محدود رکھا۔ایک اور اہم پہلو پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے اور وہ یہ کہ ایران اسرائیل تنازعہ کے پشت پر غزہ میں انسان کشی کا لامتناہی سلسلہ بھی ہے جس میں اب تک 80سے 90 لاکھ لوگوں مارے جا چکے ہیں ،اور لاکھوں لوگ معذور ہو چکے ہیں ۔یتیموں اور بیواؤں کی بھی کثیر تعداد ہے ۔جو آج دانہ دانہ کو محتاج ہیں ۔لیکن پوری دنیا ان بے کسوں کی بے کسی پر خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں ۔اور کسی میں بھی اتنی اخلاقی جرات نہیں ہے کہ وہ یہ کہہ سکیں کہ اسرائیل اپنی جانب سے یہ دہشت گردی بند کرے ۔
لہٰذا، اگر سوال کیا جائے کہ کون جیتا؟ تو شاید عسکری میدان میں کوئی واضح فاتح نہیں۔ لیکن اگر پوچھا جائے کہ کون ہارا؟ تو جواب ہوگا: انسانیت، امن اور مستقبل کا اعتماد۔
یہ جنگ ایک بار پھر یہ یاد دہانی ہے کہ اصل جیت وہی ہے جو میز پر مذاکرات سے حاصل ہو، نہ کہ میدانِ جنگ سے۔ بصورتِ دیگر، ہر فتح دراصل ایک نئی ہار کی بنیاد رکھتی ہے۔