آئین کسی بھی جمہوری ملک کی روح، اساس اور نظریاتی بنیاد ہوتا ہے۔ بھارت کا آئین بھی نہ صرف ایک دستاویزی خاکہ ہے بلکہ اس عظیم جمہوریت کے خوابوں، وعدوں اور اصولوں کا مظہر ہے۔ اس کی پیشانی یعنی "تمہید” (Preamble) میں شامل الفاظ "سوشلسٹ” اور "سیکولر”، ملک کی اس فکری سمت کو ظاہر کرتے ہیں جو ہمارے بانیوں نے آزادی کے بعد اپنائی: ایک ایسا سماج جس میں سب کو برابری، انصاف اور مذہبی آزادی حاصل ہو۔آج جب ملک میں کچھ عناصر ان دونوں الفاظ کو آئین سے نکالنے کی کوشش کر رہے ہیں، یہ صرف الفاظ کی تبدیلی نہیں بلکہ بھارت کے جمہوری مزاج اور کثرت میں وحدت کے نظریے پر ایک کاری ضرب ہے۔ اگر "سیکولر” کو ہٹا دیا جائے، تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ ریاست اب مذہب سے غیر جانبدار نہیں رہی اور آر ایس ایس موجودہ سرکار سے یہی اعلان کروانا چاہتی ہے ۔تاکہ اس کا اس ملک کو ہندو راشٹر بنانے کا جو مشن ہے وہ پورا ہو جائے ۔اور بھارت ایک ایسی ریاست بن جائے جیسی ریاست بنانے کا خواب صہیونی دیکھ رہے ہیں اور وہ بھی گریٹر اسرائیل بنانے کی دھن میں پورے مشرق وسطی کو جنگ کی بھٹی میں جھونک دینے کے درپئے ہیں ۔اسرائیل اس خواب کو شرمندہ تعبیر کر بھی سکتا ہے کیونکہ اس کے ساتھ دنیا کا سوپر پاور ہے ساتھ ہی پوری دنیا کی سب سے بڑی آبادی جو عیسائی مذہب پر مشتمل ہے اس کے ساتھ کھڑی ہو سکتی ہے ۔لیکن یہ بات سمجھ سے پرے ہے کہ بھارت اگر آر ایس ایس کے خیالی خواب کو رنگ بھرنے بیٹھا اور پاکستان ،بنگلہ دیش ،تبت ،اور افغانستان کو بھارت میں ملا کر اکھنڈ بھارت بنانے کی بات کریگا تب دنیا کا کون سا ملک اس کے ساتھ کھڑا ہوگا ؟سوشلسٹ لفظ کو آئین سے ہٹانے کا مطلب ہے اقلیتوں کے تحفظ، مذہبی آزادی اور ہم آہنگی کے اصولوں کی کھلی نفی کرنا ۔جس کا آغاز بھارت میں ہوچکا ہے ۔لیکن اس کا اعلان نہیں ہوا ہے ۔ٹھیک اسی طرح اگر لفظ "سوشلسٹ” کو حذف کر دیا جائے، تو یہ اس امر کی علامت ہوگی کہ ریاست غریبوں، محنت کشوں، اور معاشی مساوات کے تصور سے پیچھے ہٹ رہی ہے۔اور یہ پورا ملک منافع خور کیپٹلسٹوں کے ہاتھوں فروخت کردیا جائے گا ۔حالانکہ بدلی ہوئی شکل میں یہ آج بھی ہو رہا ہے لیکن بہر حال یہ سب چوری چھپے ہو رہا ہے ۔
یہ دلیل دینا کہ یہ الفاظ 1976 میں اندرا گاندھی کے دور میں آئین میں شامل کیے گئے، اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ان کی موجودگی غیر آئینی یا غیر فطری ہے۔ درحقیقت، بھارت کے آئین کے بنیادی ڈھانچے (Basic Structure) کا نچوڑ ہی یہی ہے کہ ریاست مذہب کی بنیاد پر امتیاز نہیں برتے گی، اور ہر شہری کو برابری اور سماجی انصاف میسر ہوگا۔ ڈاکٹر امبیڈکر، نہرو اور گاندھی جیسے رہنماؤں کے وژن میں یہی اقدار پنہاں تھیں، خواہ وہ الفاظ اس وقت آئین میں شامل تھے یا نہیں۔اگر ان اصطلاحات کو نکال دیا جائے، تو آئین ایک کھوکھلا کاغذی معاہدہ بن کر رہ جائے گا، جس میں نہ عوامی امیدیں باقی رہیں گی، نہ وہ اعتماد جو اسے بھارت کے تمام طبقات میں محترم بناتا ہے۔ آئین کو تبدیل کرنا، یا اس کے بنیادی اصولوں سے کھلواڑ کرنا، صرف قانونی مسئلہ نہیں بلکہ اخلاقی، سماجی اور تاریخی طور پر ایک سنگین غلطی ہوگی۔ یہ وقت ہے کہ ملک کے عوام، خاص طور پر دانشور، طلبہ، وکلاء، اور میڈیا، اس سازش کو سمجھیں اور آواز بلند کریں۔ کیونکہ اگر ایک بار آئین کی روح مجروح ہو گئی، تو صرف الفاظ نہیں حذف ہونگے بلکہ ، ہمارا جمہوری وجود، ہماری فکری آزادی اور آئندہ نسلوں کا محفوظ مستقبل بھی خطرے میں پڑ جائے گا۔سچ تو یہ ہے کہ جب سے یہ سرکار آئی ہے اسے تعمیر سے زیادہ تخریب عزیز ہے ۔گیارہ برس ہوگئے لیکن مجال ہے جو اس نے نفرت کے علاوہ کسی اور کام میں دلچسپی لی ہو ۔سمجھ میں نہیں آتا کہ جس آئین کی قسم کھا کر وہ ملک کی باگ ڈور سنبھال رہے ہیں اسی آئین کی جڑوں میں مٹھا ڈالنے کا کام کر رہے ہیں ۔اگر اس سرکار کو ذرا بھی اس آئین سے محبت ہوتی تو وہ آئین کو بدلنے کی ہر آواز کو سختی سے دبا دیتی ۔لیکن چونکہ خود اس کی یہی منشا ہے اس لئے کان میں تیل ڈال کر بیٹھی ہے اور آئین ہند کو اس کی روح نکالنے کی سازشوں میں مصروف ہے۔اسے اس کا اندازہ بھی نہیں کہ "سیکولر” اور "سوشلسٹ” محض الفاظ نہیں، بھارت کے جمہوری وژن کی بنیاد ہیں۔ ان کو ہٹانا آئین کے ساتھ بےوفائی ہوگی، اور اگر ایسا ہوا تو بھارت کا آئین اپنی معنویت، روح اور وقار کھو دے گا۔