ریاض(ہ س)۔امریکہ کا جدید ترین دفاعی نظام ‘ تھاڈ’ سعودی عرب میں آپریشنل ہو گیا ہے۔ سینٹ کام کے سربراہ جنرل ایرک کوریلا نے مملکت کے 30 جون سے یکم جولائی کے بعد جمعرات کو بتاہا ہے کہ امریکہ کے دفاعی نظام ‘ ٹرمینل ہائی آلٹی ٹیوڈ ڈیفینس سسٹم کی پہلی بیٹری پوری طرح سے آپریشنل کر دی گئی ہے۔انہوں نے اپنے حالیہ دورہ سعودی عرب کے دوران سعودی افواج کے سربراہ جنرل فیاض بن حامد الرویلی سے بھی ملاقات کی اور دوطرفہ دلچسپی کے امور پر تبادلہ خیال کیا۔ سینٹ کام کے مطابق دونوں اعلی فوجی عہدے داروں کی اس ملاقات کے دوران دوطرفہ فوجی تعاون اور سلامتی سے متعلق دلچسپی کے مشترکہ امور زیر بحث آئے۔اس موقع پر جنرل کوریلا نے سعودی فوجی سربراہ جنرل الرویلی کو جدید دفاعی نظام کی پہلی بیٹری کے مملکت میں مکمل طور پر آپریشنل ہونے پر مبارکباد دی ہے۔اپنے دورہ مشرق وسطی کے دوران امریکی سینٹ کام سربراہ جنرل ایرک کوریلا نے یمن کی مسلح افواج کے چیف آف سٹاف سے بھی سعودی ملاقات کی ہے۔ دونوں کی ملاقات میں بحیرہ احمر اور باب المندب میں سلامتی کے امور پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ تاکہ جہازوں کی محفوظ نقل و حمل کو ممکن بنایا جاسکے اور جہازوں کے لیے موجود خطرات پر غور کیا گیا۔امریکی دفتر خارجہ نے پچھلے ماہ سعودی عرب کو ساٹھے تین ارب ڈالر کی مالیت کے میزائل اور ہتھیار فروخت کرنے کی منظوری دی تھی۔ہتھیاروں کی اس ڈیل میں درمیانی رینج کے فضا سے فضا میں مار کرنے والے ایک ہزار میزائل ایمرام بھی شامل کیے گئے تفے۔امریکہ نے سعودی عرب کو دینے کے لیے گائیڈڈ ویپن سسٹم کی منظوری ماہ مارچ میں کی تھی۔۔جنرل کوریلا نے مشرق وسطی کے حالیہ دورے کے دورآن تمام دارالحکومتوں بشمول دوحا، عمان اور اسرائیل کے وڑٹ کیے۔ قطر کے دورہ کے موقع پر جنرل کوریلا العدید کے ایئر بیس بھی گئے۔ اسی امریکی ایئر بیس کو ایران نے ماہ جون میں بیلسٹک میزائلوں سے نشانہ بنایا تھا۔ تاہم امریکہ کا کوئی نقصان نہیں ہوا تھا۔جنرل کورہلا نے اردن میں بھی فوجی حکام سے ملاقاتیں کیں جبکہ 2 جولائی کو اسرائیلی دورے پر پہنچے۔ تاکہ وہاں تعینات کردہ امریکی فوجیوں سے ملاقات کر سکیں۔ انامریکی فوجیوں کو امریکی شہریوں کے تحفظ اور اسرائیلی ریاست کے دفاع کے لیے تعینات کیا گیا ہے۔ اپنے دورہ اسرائیل کے موقع پر سینٹ کام چیف نے اسرائیل اور ایران کی حالیہ جنگ کے بارے میں بھی تفصیلی تبادلہ خیال کیا۔علاوہ ازیں جنرل ایرک کوریلا نے یونان میں امریکی بحریہ کے حکام سے بھی ملاقاتیں کی ہیں۔