جنیوا(ہ س)۔جنوبی غزہ کے ناصر ہسپتال میں ایک خاتون اپنی 16 ماہ کی نواسی شام کو گود میں جھلا رہی تھی تاکہ وہ رونا بند کرے۔ ننھی شام ان متعدد بچوں میں شامل ہے جن میں دماغی انفیکشن (میننجائٹس) کی تشخیص ہوئی ہے۔ امدادی کارکنوں کا کہنا ہے کہ غزہ میں بچوں کے درمیان اس خطرناک مرض کے کیسز میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔شام کی دادی ام یاسمین نے بتایا شام کو اچانک تیز بخار ہوا اور اس کا جسم اکڑ گیا۔ ہمیں ایمبولینس ملی نہ کوئی گاڑی. بچی قریب تھی کہ دم توڑ دے اور ہم اسے علاج کے لیے لے جانے کی کوشش کر رہے تھے”۔عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) اور بین الاقوامی تنظیم ڈاکٹرز وِدآؤٹ بارڈرز” نے خبردار کیا ہے کہ اسرائیل اور حماس کے درمیان 21 ماہ سے جاری جنگ کے نتیجے میں غزہ میں دماغی سوجن کے پھیلنے کا خطرہ بڑھ چکا ہے، حالانکہ اس وقت اس کے درست پھیلاؤ کے اعدادوشمار دستیاب نہیں۔فلسطینی علاقوں میں عالمی ادارہ صحت کے نمائندے رِک پیپرکورن نے کہا کہ ہم بچوں میں دماغی انفیکشن اور گردن توڑ بخار کے بڑھتے ہوئے کیسز پر بہت فکرمند ہیں”۔عام طور پر غزہ میں جون سے اگست کے دوران وائرل میننجائٹس کے کیسز میں موسمی اضافہ ہوتا ہے، لیکن اس بار ناقص صفائی، ناکافی طبی سہولیات اور بچوں کی ویکسینیشن میں تعطل جیسے اضافی عوامل بھی بیماری کے پھیلاؤ کا سبب بن رہے ہیں۔ادھر جو ہسپتال ابھی فعال ہیں وہ مریضوں سے بھرے ہوئے ہیں اور بنیادی اینٹی بایوٹکس کی شدید قلت کا سامنا کر رہے ہیں۔”ڈاکٹرز وِدآؤٹ بارڈرز” کے غزہ میں نائب طبی رابط کار ڈاکٹر محمد ابو مغیصیب کے مطابق ہسپتالوں میں بیڈ دستیاب ہیں، نہ الگ تھلگ رکھنے کی گنجائش۔ناصر ہسپتال خان یونس میں بچوں اور زچگی کے شعبے کے سربراہ ڈاکٹر احمد الفرا کے مطابق گزشتہ ہفتے وائرل اور بیکٹیریائی میننجائٹس کے کم از کم 40 کیسز سامنے آئے۔اقوام متحدہ کے دفتر برائے انسانی امور کی ایک رپورٹ کے مطابق شمالی غزہ کے شہر میں واقع الرنتیسی بچوں کے ہسپتال میں گزشتہ چند ہفتوں کے دوران سینکڑوں کیسز رپورٹ ہوئے ہیں۔ڈاکٹر ابو مغیصیب کا کہنا ہے کہ بیکٹیریا کی شناخت کے لیے ضروری ٹیسٹ اور خون کے نمونوں کی دستیاب سہولت نہ ہونے کے باعث درست تشخیص میں بھی مشکلات پیش آ رہی ہیں۔عالمی ادارہ صحت نے خبردار کیا ہے کہ ہوا سے پھیلنے والا بیکٹیریائی میننجائٹس جان لیوا ثابت ہو سکتا ہے اور وہ خیمہ بستیوں میں آسانی سے پھیل سکتا ہے، جب کہ وائرل میننجائٹس، جو نسبتاً کم خطرناک ہے، وہ ناقص صفائی والے پناہ گزین کیمپوں میں تیزی سے پھیلنے کا خدشہ رکھتا ہے۔