پیرس(ہ س)۔فرانسیسی خفیہ ادارے کے سربراہ نیکولا لیرنر نے منگل کے روز کہا کہ ایران کے کچھ اعلیٰ سطح کے افزودہ یورینیم کے ذخیرے امریکی اور اسرائیلی فضائی حملوں میں تباہ ہو گئے ہیں، تاہم باقی ماندہ مقدار کہاں ہے، اس بارے میں یقین سے کچھ نہیں کہا جا سکتا۔لیرنر نے ایک ٹی وی انٹرویو میں مزید کہا کہ فضائی حملوں کے نتیجے میں ایرانی جوہری پروگرام کے تمام پہلو کئی مہینوں تک پیچھے چلے گئے ہیں۔اس کے باوجود، اْنھوں نے بتایا کہ پیرس کے پاس کچھ اشارے موجود ہیں جن سے ایرانی اعلیٰ افزودہ یورینیم کے ذخائر کی جگہوں کا اندازہ ہوتا ہے، لیکن جب تک اقوام متحدہ کی جوہری توانائی کی ایجنسی دوبارہ ایران نہ لوٹے، اس وقت تک ان کے مقام کی تصدیق ممکن نہیں۔یہ بات ان یورپی عہدے داروں کے بیانات کے بعد سامنے آئی ہے جن کے مطابق امریکی حملوں نے تہران میں غصے کی فضا کو شدید تر کر دیا ہے، اور وہاں کے رہنماؤں کا جوہری ہتھیار حاصل کرنے کا عزم مزید پختہ ہو گیا ہے۔تین یورپی حکام نے گزشتہ ہفتے کے روز کہا تھا کہ ایرانی جوہری پروگرام کو محدود کرنے کے لیے کسی معاہدے کی ضرورت ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ امریکی حملوں نے تہران کو خفیہ طور پر جوہری ہتھیار بنانے کی نئی ترغیب دی ہے۔ یہ بات "واشنگٹن پوسٹ” اخبار نے بتائی۔حکام نے مزید بتایا کہ یورپی ممالک ایران کے ساتھ جوہری مذاکرات کے لیے دباؤ ڈال رہے ہیں، لیکن ان کے خیال میں کسی معاہدے تک پہنچنے کی امید بہت کم رہ گئی ہے۔انھوں نے یہ بھی اشارہ دیا کہ ابتدائی اندازوں کے مطابق امریکی حملے ایرانی جوہری پروگرام کو ختم کرنے میں ناکام رہے ہیں۔یورپی حکام یہ تسلیم کرتے ہیں کہ تہران کی حکمتِ عملی میں ممکنہ طور پر تبدیلی آ سکتی ہے۔ایک یورپی عہدے دار نے کہا کہ کسی بھی نئے ممکنہ مذاکرات کی نوعیت اس بات پر منحصر ہوگی کہ ایرانی جوہری مقامات کو کتنا نقصان پہنچا ہے اور باقی صلاحیت کتنی ہے۔ ان کے مطابق کسی حتمی فیصلے تک پہنچنے میں غالباً وقت لگے گا۔عہدے دار کے مطابق ابتدائی یورپی جائزے ظاہر کرتے ہیں کہ امریکی فضائی حملوں نے فردو اور نطنز کی افزودگی تنصیبات اور اصفہان کے جوہری کمپلیکس کو سنگین نقصان” پہنچایا ہے، تاہم یہ حملے ایرانی جوہری پروگرام کو مکمل طور پر ختم نہیں کر سکے۔