گزشتہ چند برسوں میں ہمارے ملک میں شادی شدہ عورتوں کی طرف سے ازدواجی بے وفائی کے واقعات میں نمایاں اضافہ دیکھنے کو ملا ہے۔ یہ مسئلہ صرف اخلاقی اور خاندانی پہلو ہی نہیں رکھتا، بلکہ اس کے اثرات سماج کی مجموعی ذہنیت، اقدار، اور رشتوں کے تانے بانے پر بھی مرتب ہو رہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہ تبدیلی محض عورتوں کی آزادی کی علامت ہے یا معاشرتی بگاڑ اور اخلاقی انحطاط کا مظہر؟
ہم اس حقیقت سے انکار نہیں کر سکتے کہ تعلیم، معاشی خود کفالت، اور سوشل میڈیا کی وسعت نے عورتوں کو نہ صرف بااختیار بنایا ہے بلکہ اُنہیں زندگی کے فیصلوں میں زیادہ خودمختار بھی کر دیا ہے۔ اس خودمختاری کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ اگر شادی شدہ زندگی میں محبت، احترام، یا ذہنی ہم آہنگی نہ ہو تو عورت اب خاموشی سے زندگی گزارنے پر مجبور نہیں رہی۔
تاہم، یہ خودمختاری اگر جذباتی بے راہ روی یا وقتی تسکین کی تلاش میں بدل جائے تو اس کے نتائج تباہ کن ہو سکتے ہیں۔
شادی شدہ عورتوں کی بے وفائی کے بڑھتے رجحان کے پیچھے کئی اسباب ہیں، جن میں چند اہم درج ذیل ہیں۔اگر ہم اس سلسلے کو نمبر وار دیکھیں تو سب سے پہلے ہمیں
جذباتی محرومی پر توجہ مرکوز کرنی ہوگی ۔اور اس جذباتی محرومی کے اسباب پر غور کریں تو اس میں سوشل میڈیا کا بہت اہم رول ہے ۔جس نے خواتین کو یہ باور کرانے میں اہم رول ادا کیا ہے کہ آپ گھٹ گھٹ کر جینے پر مجبور کیوں ہیں ،آپ کوقانون نے یہ حق دیا ہے کہ آپ جب چاہیں اپنے گرد پھیلے سماجی تانے بانے کو توڑ کر اپنی خواہشات کی تکمیل کر سکتی ہیں ۔اور یہی وجہ ہے کہ بہت سی خواتین اپنے شوہروں سے توجہ، محبت، اور احترام نہ ملنے کے سبب کسی اور کی طرف مائل ہو جاتی ہیں جدید ٹکنا لوجی کے دور میں فیس بک، انسٹاگرام، اور واٹس ایپ جیسے پلیٹ فارمز نے انہیں "پرانے دوستوں” سے دوبارہ رابطہ اور "نئے رشتے” بنانے کو بے حد آسان کر دیا ہے۔جنسی تعلیم کے عام ہونے کے سبب اور غلط سلط معلومات تک ان کی رسائی نے بھی خواتین کو بے راہ روی پر آمادہ کر دیا ہے ۔
ازدواجی زندگی میں جنسی تعلقات کی سرد مہری بھی خواتین کو باہر کی دنیا میں جذباتی یا جسمانی قربت تلاش کرنے پر مجبور کر سکتی ہے۔اور مردوں کی یہ سرد مہری ان کی زندگی کی بھاگ دوڑ کی وجہ سے ہوتی ہے ۔زندگی اتنی تیز رفتار ہو گئی ہے کہ ہر ان ان کے سامنے ایک نیا چیلنج ہوتا ہے ان کے پاس اتنا وقت ہی نہیں ہوتا کہ وہ خانگی زندگی کی تمام ضروریات پر توجہ مبذول کر سکیں ۔
فلموں، ویب سیریز، اور ڈراموں میں شادی سے باہر تعلقات کو "نارمل” یا "رومانوی” بنا کر پیش کرنا بھی ایک اہم سبب ہے۔ایک بڑی وجہ جوائنٹ فیملی کے بجائے نیوکلیر فیملی سسٹم کا قیام بھی ہے جس میں عورت کو کوئی مشورہ یا رہنمائی کرنے والا نہیں ہوتا، جس سے وہ جلد غلط فیصلے کر بیٹھتی ہے۔ازدواجی بے وفائی صرف ایک فرد کی ذاتی زندگی کا مسئلہ نہیں بلکہ اس کے اثرات خاندان، بچوں، اور پورے معاشرے پر پڑتے ہیں۔ بچوں کی ذہنی نشوونما متاثر ہوتی ہے، خاندانی نظام کمزور پڑتا ہے، اور طلاقوں کی شرح بڑھتی ہے۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ معاشرہ مزید ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوجاتا ہے۔یہ سوال بھی بے حد اہم ہے کہ کیا اس پورے منظرنامے میں صرف عورتوں کو ہی موردِ الزام ٹھہرایا جا سکتا ہے؟ قطعاً نہیں۔ کئی مرد اپنی ازدواجی ذمہ داریوں سے غفلت برتتے ہیں، بیوی کو وقت نہیں دیتے، یا بدسلوکی کرتے ہیں۔ ایسے حالات میں عورت کے جذباتی یا ذہنی طور پر کمزور پڑنے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ لیکن، اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ بے وفائی کو جواز بخشا جائے۔ مسئلہ دونوں طرف ہے، اور حل بھی دونوں کی اصلاح میں ہے۔ظاہر سی بات ہے کہ اگر اس کا حل ڈھونڈنا ہے تو دونوں فریق کو مل کر ہی کوئی حل نکالنا ہوگا ۔مضبوط ازدواجی رشتہ قائم کرنے کے خواہشمند جوڑوں کو چاہئے کہ وہ شادی کو صرف ایک رسمی رشتہ نہ سمجھیں بلکہ اسے باہمی عزت، محبت، اور اعتماد پر استوار کریں ۔ایک دوسرے کے ساتھ مکالمہ اور مشورہ کریں
اگر رشتے میں دقت ہو تو دونوں فریقین کو چاہیے کہ ایک دوسرے سے گفت و شنید کریں یا ماہرین سے رہنمائی حاصل کریں۔ڈیجیٹل دنیا میں حدود مقرر کرنا ضروری ہے تاکہ جذباتی فریب سے بچا جا سکے۔اور اس کا سب سے بہتر راستہ یہ ہے کہ بچپن سے ہی بچوں میں رشتوں کی اہمیت، وفاداری، اور ذمہ داری کا شعور پیدا کریں ۔
شادی ایک مقدس رشتہ ہے جو اعتماد، قربانی، اور محبت سے جڑا ہوتا ہے۔ بے وفائی مرد کرے یا عورت، یہ رشتے کی بنیاد کو ہلا دیتی ہے۔ ہمیں بطور سماج اس رجحان پر سنجیدگی سے غور کرنا ہوگا اور ایسے اسباب کو ختم کرنے کی کوشش کرنی ہوگی جو ازدواجی رشتوں کو کمزور کرتے ہیں۔
آزادی کا مطلب بے لگامی نہیں، اور خودمختاری کا مطلب بے راہ روی نہیں۔ ضروری ہے کہ ہم اس فرق کو سمجھیں اور اپنے خاندانی نظام کو بچائیں۔