پیرس(ہ س)۔ایک فرانسیسی سفارتی ذریعے کے مطابق فرانس، برطانیہ اور جرمنی کے وزرائے خارجہ اور یورپی یونین کے اعلیٰ سفارت کار نے ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی سے ٹیلیفون پر بات کی۔ ذرائع نے جمعرات کے روز بتایا کہ وزراء نے ایرانی سفارت کار پر زور دیا کہ ایران فوری طور پر ایک "قابل تصدیق اور پائے دار” جوہری معاہدے تک پہنچنے کے لیے سفارتی کوششیں بحال کرے۔ساتھ ہی انہوں نے خبردار کیا کہ اگر موسمِ گرما کے اختتام تک اس قسم کے معاہدے کی جانب کوئی ٹھوس پیش رفت نہ ہوئی، تو وہ ایران پر بین الاقوامی پابندیاں دوبارہ عائد کرنے کے لیے مخصوص طریقہ کار استعمال کریں گے۔ یہ اطلاع میڈیا نے دی۔ذرائع کے مطابق ایران پر اسرائیلی اور امریکی فضائی حملوں کے بعد یورپی وزراء اور ایرانی وزیر خارجہ کے درمیان یہ پہلا رابطہ پہلا تھا۔ جون میں مذکورہ حملوں کا ہدف ایران کا جوہری پروگرام تھا۔یہ پیش رفت ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب ایرانی حکومت کی ترجمان فاطمہ مہاجرانی نے کہا ہے کہ جوہری پروگرام سے متعلق مذاکرات جاری رکھنا یا ان سے دست بردار ہونا قومی مفاد کی بنیاد پر طے کیا جائے گا۔انہوں نے اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو کے اس بیان پر رد عمل ظاہر کیا، جس میں انہوں نے کہا تھا کہ واشنگٹن کے ساتھ مذاکرات میں ایران کے میزائلوں کے دائرہہ کار کو محدود کرنے پر بات ہونی چاہیے۔ مہاجرانی نے کہا "جیسا کہ پہلے بھی واضح کیا گیا، چاہے بات چیت ہو یا اس سے علیحدگی، ہر قدم قومی مفاد کے تحت پرکھا جائے گا اور ایران اپنے اصولوں کی روشنی میں فیصلہ کرے گا۔” یہ بیان ایرانی خبر رساں ایجنسی "اسنا” نے جاری کیا۔اسی سلسلے میں بدھ کے روز امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ ایران امریکا سے مذاکرات چاہتا ہے، لیکن خود انھیں ان مذاکرات کے لیے جلدی نہیں۔انہوں نے العربیہ/الحدث” سے بات کرتے ہوئے کہا "وہ (ایرانی) شدت سے بات چیت کے خواہاں ہیں۔ لیکن ہمیں جلدی نہیں، ایرانیوں کو پہلے ہی معاہدہ کر لینا چاہیے تھا۔ایرانی وزارتِ خارجہ کے ترجمان اسماعیل بقائی نے پیر کو کہا تھا کہ ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی اور امریکی ایلچی اسٹیو وٹکوف کے درمیان کسی بھی نئی ملاقات کے لیے "نہ تو کوئی وقت مقرر ہے اور نہ ہی کوئی مقام۔ایک پریس کانفرنس میں انہوں نے زور دیا کہ تہران کسی بھی ایسی سفارتی کارروائی میں شریک نہیں ہوگا جس کے نتائج پہلے سے یقینی نہ ہوں۔جب ان سے مذاکرات کی بحالی کی ایرانی شرائط کے بارے میں سوال کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ ایران نے امریکا کے ساتھ جوہری مذاکرات سنجیدگی سے کیے، لیکن اسرائیل نے مذاکرات کے چھٹے دور سے پہلے ایران کے خلاف "جرم کا ارتکاب کیا”۔ بقائی کا اشارہ 13 جون کو اسرائیل کی جانب سے ایران پر شروع کی گئی جنگ کی طرف تھا۔انہوں نے مزید کہا "جب تک ہمیں سفارت کاری کی افادیت اور ثمرات کا یقین نہ ہو جائے، ہم اس راہ پر نہیں چلیں گے۔یاد رہے کہ عراقچی اور وٹکوف کے درمیان اپریل سے اب تک جوہری موضوع پر بات چیت کے پانچ دور ہو چکے ہیں۔ تاہم 13 جون کو اسرائیل کی بم باری کے نتیجے میں بارہ روزہ جنگ چھڑ گئی تھی، جو چھٹے دور کی شروعات سے پہلے ہوئی۔