امریکی ٹیریف، سیز فائر اور مودی حکومت کی مشکل پوزیشن
یہ معاملہ کئی پہلوؤں سے نہایت اہم اور پیچیدہ ہے۔ بھارت اور امریکہ کے تعلقات، عالمی تجارتی دباؤ، داخلی سیاست اور خطے کی سلامتی پالیسی، سب ایک دوسرے سے جڑ کر مودی حکومت کو چیلنج دیتے نظر آر ہے ہیں ۔
امریکہ نے بھارت پر 25 فیصد ٹیریف عائد کرنے کا اعلان کیا ہے۔ یہ قدم بظاہر تجارتی پالیسی کے تناظر میں اٹھایا گیا ہے، مگر اس کے اثرات سیاسی اور سفارتی سطح پر بھی شدید ہوں گے۔ دوسری طرف اپوزیشن مودی حکومت کو نشانہ بنا رہی ہے اور ڈونالڈ ٹرمپ سے نریندر مودی کی دوستی کو طنز کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ ملک میں یہ بیانیہ بھی زور پکڑ رہا ہے کہ پاکستان کے ساتھ سیز فائر کا فیصلہ دراصل امریکہ کے دباؤ پر کیا گیا۔
امریکی صدر کی جانب سے عائد کردہ 25 فیصد ٹیریف بھارت کی برآمدات کے لیے بڑا نقصان ہے۔ بھارت کی معیشت پہلے ہی دباؤ کا شکار ہے اور عالمی منڈی میں مسابقت کا مسئلہ بڑھتا جا رہا ہے۔ امریکہ کے اس فیصلے سے نہ صرف بھارتی مصنوعات کی لاگت بڑھے گی بلکہ عالمی سرمایہ کاروں کا اعتماد بھی متاثر ہو سکتا ہے۔
یہاں سوال یہ ہے کہ امریکہ نے یہ قدم کیوں اٹھایا؟ کچھ ماہرین کے مطابق بھارت کی پالیسیوں اور حالیہ تجارتی معاہدوں میں ہچکچاہٹ نے امریکہ کو ناراض کیا۔ امریکہ کی خواہش ہے کہ بھارت اپنی منڈی مزید کھولے، جبکہ بھارتی حکومت داخلی دباؤ کے باعث زرعی اور صنعتی سیکٹر کو مکمل آزادانہ مقابلے کے لیے تیار نہیں کر پا رہی۔
ملک میں یہ بیانیہ زور پکڑ رہا ہے کہ پاکستان کے ساتھ سیز فائر کا فیصلہ امریکہ کے دباؤ پر لیا گیا۔ اسٹیبلشمنٹ کے اندر یہ تاثر بھی تقویت پا رہا ہے کہ مودی حکومت نے عالمی طاقتوں کے اشارے پر یہ قدم اٹھایا۔
سیز فائر کے اعلان کے بعد ڈونالڈ ٹرمپ نے اس پر مثبت تبصرہ کیا، جس نے اپوزیشن کو مزید ہتھیار فراہم کر دیے۔ اپوزیشن رہنما یہ سوال اٹھا رہے ہیں کہ اگر مودی حکومت پاکستان پر سخت رویہ اپنانے کے دعوے کرتی تھی تو پھر اچانک جنگ بندی پر کیوں راضی ہو گئی؟ کیا یہ فیصلہ داخلی سلامتی حکمتِ عملی کے تحت کیا گیا یا امریکی دباؤ کا نتیجہ ہے؟
نریندر مودی حکومت داخلی سطح پر اپوزیشن کی بڑھتی تنقید کا سامنا کر رہی ہے۔ اپوزیشن نے سیز فائر اور امریکی ٹیریف کے فیصلے کو جوڑ کر حکومت کو کٹہرے میں کھڑا کر دیا ہے۔ "دوستی کی سیاست” اور "قومی وقار کی کمزوری” جیسے نعرے اپوزیشن کے لیے مؤثر ہتھیار بن چکے ہیں۔
حکومت کے سامنے سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ وہ عوام کو یہ یقین دلائے کہ سیز فائر اور امریکی ٹیریف ایک دوسرے سے جُڑے نہیں ہیں اور بھارت کے قومی مفاد کے تحت تمام فیصلے کیے جا رہے ہیں۔ مگر زمینی حقیقت یہ ہے کہ معیشت دباؤ میں ہے اور امریکہ جیسے بڑے تجارتی پارٹنر سے تعلقات مزید کشیدہ ہو سکتے ہیں۔
مودی حکومت کے لیے اب سب سے بڑا امتحان یہ ہے کہ وہ کس طرح امریکہ کے ساتھ تعلقات کو بحال کرے اور ساتھ ہی اندرونِ ملک اپوزیشن کے بیانیے کو توڑے۔ تجارتی محاذ پر متبادل منڈیاں تلاش کرنا، یورپی یونین اور مشرقی ایشیائی ممالک کے ساتھ معاہدوں کو تیز کرنا ایک ضرورت بن چکی ہے۔
اسی طرح خطے میں امن کے لیے بھارت کو ایک واضح اور متوازن حکمتِ عملی کی ضرورت ہے۔ اگر سیز فائر کا فیصلہ واقعی بھارت کے اپنے مفاد میں ہے تو حکومت کو اسے عوام کے سامنے مضبوط دلائل کے ساتھ پیش کرنا ہوگا۔ ورنہ اپوزیشن یہ تاثر قائم کرنے میں کامیاب ہو جائے گی کہ مودی حکومت بیرونی دباؤ پر فیصلے کر رہی ہے۔
یہ پورا معاملہ بتاتا ہے کہ خارجہ پالیسی، سلامتی کے فیصلے اور تجارتی تعلقات کس حد تک ایک دوسرے سے جڑے ہوتے ہیں۔ امریکی ٹیریف اور پاکستان کے ساتھ سیز فائر کے فیصلے نے مودی حکومت کو مشکل سیاسی اور اقتصادی صورتِ حال میں ڈال دیا ہے۔ آنے والے مہینوں میں یہ دیکھنا ہوگا کہ حکومت کس طرح عالمی دباؤ اور داخلی سیاست کے درمیان توازن قائم کرتی ہے۔