یہ ایک ایسے ملک میں جہاں لوگ مختلف زبانیں بولتے ہیں، مختلف مذاہب پر عمل کرتے ہیں اور مختلف ثقافتوں سے تعلق رکھتے ہیں. مشترکہ ورثے کو قائم رکھنا وفاداری کی علامت ہے, ہندوستانی مسلمان اس عظیم تہذیبی نقشے میں شامل مختلف قوموں میں ایک منفرد مقام رکھتے ہیں۔ وہ صرف بند – اسلامی ورثے کے وارث ہی نہیں، بلکہ آئے والی نسلوں کے لیے اس کے محافظ بھی ہیں جیسے جیسے دنیا زیاده منقسم ہوتی جا رہی ہے اور ثقافتیں ایک جیسی بنتی جا رہی ہیں. ویسے ویسے ہندوستانی مسلمان خاموشی سے اس روایت کو قائم رکھے ہوئے ہیں جو برصغیر میں صدیوں سے رائج ہے یعنی گنگا جمنی تہذیب کی روایت فن، زبان اور فن تعمیر میں ان کی خدمات صرف ماضی کا حصہ نہیں ہیں، بلکہ آج بھی وہ زندہ اور متحرک ہیں، ایک ایسی ثقافت میں جہاں روایات باہم ملتی ہیں اور حسن امتزاج میں پروان چڑھتا ہے۔
بندوستانی اسلام مقامی رسم و رواج جمالیاتی ذوق اور فلسفوں کے ساتھ مسلسل تعامل کے ذریعے پروان چڑھا اس کا نتیجہ کسی ایک جیسے مذہبی ثقافتی سانچے کی صورت میں نہیں نکلا، بلکہ ایک منفرد بندوستانی امتزاج کی صورت میں ظاہر ہوا، جو صوفی درگاہوں، مغل فن پاروں، اردو شاعری کی نغمگی اور بند اسلامی طرز تعمیر کی دلکشی میں جھلکتا ہے۔ یہ تخلیقات صرف اسلامی طرز یا مقصد کی نمائنده نہیں تھیں، بلکہ اس بات کی بھی دلیل تھیں کہ مختلف ثقافتیں ایک دوسرے کو کیسے متاثر کر سکتی ہیں۔ مسلم ہنرمند کا ہاتھ اپنے کرد و پیش کی زمین کے ساتھ ہم آہنگ تھا چاہے وہ تاج محل کے گنبد ہوں یا لکھنؤ کی چکن کاری کا نفیس فن.
آج جب فنون لطیفہ اور ثقافتی تنوع کے لیے حمایت کم ہوتی جا رہی ہے، تو اس مشترکہ ورثے کی حفاظت کی ذمہ داری زیاده تر افراد اور برادریوں پر آ گئی ہے۔ ہندوستانی مسلمان اس ورثے کے مضبوط محافظ بن کر ابھرے ہیں. اُردو صرف ایک زبان نہیں بلکہ ایک ثقافتی خزانہ ہے جو مختلف مذاہب کے ماننے والوں کے درمیان مکالمے سے جنم لیا۔ اس نے فارسی اور سنسکرت دونوں سے خیالات اخذ کیے، اور اس میں صوفی بزرگوں اور بھکتی شاعروں کے نظریات کی جھلک بھی ملتی ہے۔ غالب کے اشعار رحیم کے دوہے، اور کبیر کے کلام میں اکثر ایک جیسے الفاظ اور خیالات ملتے ہیں. لیکن جیسے جیسے اردو کو ہندوستان کے تعلیمی نظام کے حاشیے پر دھکیلا جا رہا ہے، ویسے ویسے ہندوستانی مسلمان مصنف، شاعر، صحافی اور ڈیجیٹل آرکائیوسٹ اس کی خوبصورتی کو زننده رکھنے میں لگے ہوئے ہیں۔ آن لائن ویب سالگی جیسے "ریختہ” اس مشترکہ لسانی خزانے کو محفوظ رکھنے کے لیے نہایت اہم مرکز بن چکی ہیں، تاکہ ہم ورثم على نسلوں کے لیے ہمیشہ قابل رسائی رہے ہیں جدید محافظت روایتی دستکاریوں کو زندہ رکھنے کے انداز میں بھی نظر آتا ہے۔ حیدرآباد میں مسلم خاندان آج بھی بڑی محنت سے بذری ویئر چاندی کی نقش و نگار سے مزین دمات کاری کا فن جاری رکھے ہوئے ہیں، جو دکن کی سلطنتوں کے دور سے چلا آ رہا ہے۔ لکھنو میں زردوزی کے کاریگر مغلیہ دور کی کشیدہ کاری کو زندہ رکھے ہوئے ہیں۔ کشمیر میں، نامداری قالین بافی) کے کاریگر اور پھیلر مائے کاغذی عجائب (کاری) کے مصور – جن میں سے اکثر مسلمان ہیں – ان مرتی ہوئی فنون لطیفہ کو بغیر کسی اداره جاتی مدد کے زندہ رکھے ہوتے ہیں۔ یہ صرف دستکاریاں نہیں بلکہ تاریخی یادداشت. علی مبارک اور جمالیاتی حسن کی نمائندہ ہیں، جو ہندو اور مسلم فنون کے بابعی امتزاج سے جنم لیں، فن تعمیر دیگر تمام فنون کی نسبت. يندوستانی مسلم ثقافت کی ہم آہنگ روح کو سب سے بہتر انداز میں ظاہر کرتا ہے۔ ہندوستانی اسلامی طرز تعمیر وقت کے ساتھ ارتقا پذیر ہوتا رہا، جس میں مقامی طرز کو فارسی اور وسطی ایشیائی انداز سے ہم آہنگ کیا گیا۔ اس کی مثالیں دہلی کا قطب کمپلیکس، بھوپال کے محلات اور گلبرگہ کی مساجد میں دیکھی جا سکتی ہیں۔ حتی کہ جب مذہبی کشیدگی بھی موجود تھی، تب بھی مساجد کی تعمیر میں بندو کاریگر شامل کیے جاتے تھے، اور مسلم سرپرست مندروں کی تعمیر کے لیے مالی معاونت فراہم کرتے تھے۔ یہ مکالمہ آج بھی جاری ہے، جیسا کہ جدید مساجد کے ڈیزائن میں مقامی طرز تعمیر کے استعمال سے واضحہوتا ہے۔ مثال کے طور پر، راجستھان کی مساجد سرخ پتھر سے، کیرالہ کی لکڑی سے، اور گجرات کی سنگ مرمر سے تعمیر کی جاتی ہیں۔ لیکن ایسے ورثے کو زندہ رکھنا اب ایک سیاسی معاملہ بنتا جا رہا ہے۔ 2006 کی سچر کمیٹی رپورٹ نے تعلیم اور روزگار کے شعبوں میں مسلمانوں کی شدید پسماندگی کو اجاگر کیا تھا، اور بعد کے متعدد سروے اس نتیجے کی تصدیق کر چکے ہیں۔ پیو ریسرچ سینٹر کی 2021 کی ہندوستان میں مذہب سے متعلق تحقیق نے بھی اس کمیونٹی میں گھٹتی ہوئی سماجی ترقی کی جانب توجہ دلائی ان ساختی مسائل کے باوجود، بندوستانی مسلمان برصغیر کے اس ہم آہنگ ثقافتی ورثے کی روح کو محفوظ رکھے ہوئے ہیں۔ وہ جب ایسا کرتے ہیں تو صرف فنکار، لسانیات دان یا معمار نہیں ہوتے، بلکہ تہذیبی محافظ بھی ہوتے ہیں۔ آج بھی بندو، سکھ، عیسائی اور مسلمان یکسان عقیدت کے ساتھ صوفی درگاہوں کا رخ کرتے ہیں، جیسے اجمیر شریف اور دہلی میں حضرت نظام الدین اولیاء کا مزار قوال آج بھی وہ کلام گائے ہیں جو ایک ساتھ کرشن اور اللہ کی مدح میں ہوتے ہیں، دیہی ہندوستان میں مسلم موسیقار پولی کے میلوں میں ساز بجاتے ہیں، اور ہندو شاعر فارسی زده اُردو میں شاعری کرتے ہیں. یہ ثقافتی تسلسل أن تفریق پیدا کرنے والی آوازوں کے لیے خاموش مگر مؤثر تردید ہیں، جو ہندوستانی مسلمانوں کو اُن کے اپنے وطن میں اجنبی بنا کر پیش کرنا چاہتے ہیں۔ بڑھتی ہوئی عدم برداشت کے اس دور میں اس ہم آہنگ تہذیب کو زندہ رکھنا ایک طرح سے حکومت کے رونے کے خلاف مزاحمت بن چکا ہے۔ اردو اشعار کا پڑھنا، بڈری کا کوئی گلدان بنانا، یا کسی پرانی مسجد کی مرمت کرنا یہ سب اس بات کا اعلان ہیں کہ ہندوستانی شناخت ہمیشہ سے تہہ دار کثرت پذیر اور کشادہ رہی ہے۔ یہ عمل ماضی سے چمٹے رہنے کا اظہار نہیں، بلکہ اس ماضی کو فن، احترام، اور مشترکہ یادداشت کی بنیاد پر مستقبل کے لیے نئے سرے سے تخلیق کرنے کی کوشش ہے۔ اگر بندوستان اپنے آئین میں دیے گئے ” تنوع میں اتحاد” کے وعدے کو واقعی برقرار رکھنا چاہتا ہے، تو اسے اس ورثے کے محافظوں کو تسلیم کرنا ہوگا اور ان کی بھرپور حمایت کرنی ہوگی ہندوستانی مسلمان صرف اپنی ثقافت کو زندہ نہیں رکھے ہوئے، بلکہ وہ در حقیقت ہندوستان کی مجموعی تہذیب کو زندہ رکھے ہوئے ہیں۔ پر ہاتھ سے کڑھا گیا چکن کاری کا نقش بر مشاعرے میں پڑھی جانے والی اردو غزل اور ہر وہ پرانی مینار جو آج بھی آسمان کو چیرتی کھڑی ہے یہ سب اس بات کی یاد دہانی ہیں کہ ہندوستانیت کی اصل صرف ایک نہیں، بلکہ کئی رنگوں، کلی آوازوں، اور کئی تہذیبوں کے امتزاج میں ہے۔